کروڑوں لوگوں نے ووٹ دئیے‘نااہلی کا فیصلہ ہو چکا تھا‘ بحالی پر وزیراعظم نہیں بنوں گا: نوازشریف
اسلام آباد+ لاہور (محمد نواز رضا/ وقائع نگار خصوصی+ خصوصی رپورٹر) سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک گرینڈ ڈائیلاگ ہونا چاہئے ایک نئے پولیٹیکل اور سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے‘ نظرثانی کی اپیل پر بحال ہوا تو وزیراعظم نہیں بنوں گا‘ میری نااہلی کا فیصلہ ہو چکا تھا‘ بس نااہلی کا جواز تلاش کیا جا رہا تھا‘ کروڑوں لوگوں نے ووٹ دے کر وزارت عظمیٰ پر فائز کیا‘ 5 معزز ججوں نے نااہل قرار دے کر گھر بھجوا دیا‘ طے پا گیا ہے میاں شہباز شریف ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ این اے 120 کے ٹکٹ کا فیصلہ ابھی کرنا ہے۔ نیب کا قانون پرویز مشرف نے سیاستدانوں بالخصوص ہمارے لئے بنایا تھا ہماری حکومت تھی سوچا تھا کہ اس کو تبدیل کر دیں گے لیکن دوسری چیزوں کی طرف رہے جس کے باعث اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکی‘ 70سال میں کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا‘ ججوں کے ہمیں ’’گاڈ فادر ‘‘ اور سسلیئن مافیا‘‘ کہنے پر افسوس ہوا‘ ہر دولت کے پیچھے جرم والے ریمارکس افسوسناک ہیں‘ نیب کو 6 ہفتے کیوں دئیے جا رہے ہیں‘ جج کو نیب کے اوپر بٹھا دیا گیا ہے۔ اڈیالہ جیل سے متعلق جج کے ریمارکس پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے اس کا جواب آنا چاہئے تھا لیکن جواب نہیں آیا۔ انہوں نے یہ بات پیر کو پنجاب ہائوس میں سینئر صحافیوں سے دوسری غیررسمی نشست میں بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم پرویز مشرف کی طرح بھاگ جائیں گے لیکن ہم بھاگنے والے نہیں‘ میں چاہتا ہوں کہ حالات خراب نہ ہوں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ این اے120میں کس کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا تو انہوں نے کہا کہ ’’آپ ہی بتائیں پارٹی ٹکٹ کس کو دیا جائے ؟‘‘ انہوں نے کہا کہ میں اپنے وکلاء کی کارکردگی سے مطمئن ہوں‘ حارث نے بڑا اچھا مقدمہ لڑا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے پہلے درخواست خارج کی پھر معلوم نہیں کیسے قبول کر لی۔ جے آئی ٹی میں مخالفین کو ڈالا گیا۔ ججوں نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ مجھ پر کوئی الزام نہیں وزارت عظمیٰ سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں کہا ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں‘‘ مجھے سسلیئن مافیا کہا گیا، کیا مافیا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ خود کو بحال کرانے نہیں اپنے گھر جا رہا ہوں۔ جی ٹی روڈ کی بات کی ہے کیا یہ کوئی تصادم ہے ؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سمت کا تعین 70سال میں بھی نہیں ہو سکا، مناسب نہیں کہ کروڑوں لوگ آپ کو ووٹ دیں اور پانچ قابل احترام جج آپ کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کر دیں اگر ایک ادارہ دوسرے ادارہ کا احترام نہیں کرے گا تو آئین کی پاسداری نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ میرے چار سال اقتدار میں گزرے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں اگر میرے دل میں چور ہوتا تو خود کو احتساب کے لئے پیش نہ کرتا، روزمرہ کے اس تماشے کو اب ختم ہونا چاہئے۔ کیا کوئی ایسے جج موجود ہیں جو مشرف کا احتساب کریں اور سزا دیں۔ حالات کی خرابی نہیں تصحیح چاہتا ہوں صرف سیاستدان ہی ڈائیلاگ کرتا ہے اسی لئے جنگیں ہمیشہ ڈکٹیٹروں کے دور میں ہوئیں۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو وفاقی کابینہ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا کہ وہ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ تین مرتبہ عوامی منیڈیٹ سے اقتدار میں آیا، ایک مرتبہ سابق صدر، دوسری مرتبہ فوجی آمر اور اب تیسری مرتبہ عدالت نے باہر نکالا، پانامہ میں کوئی چیز نہیں ملی تو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کا جواز بنا کر نا اہل قرار دیدیا، جو نادر مثالیں قائم کی جا رہی ہیں یہ ملک کیلئے خوفناک ثابت ہوں گی، حالات جیسے بھی ہوئے ان کا مقابلہ کروں گا، بھاگنے والا نہیں ہوں، فخر ہے اپنے چار سالہ حالیہ دور اقتدار میں قوم کی خدمت کی، کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں ہے، پانامہ کیس آتے ہی سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو کمشن قائم کرنے کیلئے خط لکھا، لیکن انہوں نے قائم نہیں کیا، قانون اور آئین کی بالادستی قائم نہ ہوئی تو پاکستان کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے، سیاسی ڈائیلاگ جلد شروع ہونے چاہئیں تا کہ الیکشن تک یہ مکمل ہو، لوگ ریفرنڈم کی طرح ڈائیلاگ میں آنے والی تجاویز کی روشنی میں ووٹ دیں، ہم نے ملک کی سالمیت کے تحفظ کیلئے کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1956کا آئین بنا، ابھی اس پر عمل ہی نہیں ہوا تھا کہ 1958 میں مارشل لاء لگ گیا، 1970 میں عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے پر بنگلہ دیش بن گیا، جبکہ 1973 کا آئین بنایا گیا اور یہ آئین بننے کے بعد 2 فوجی ڈکٹیٹر اقتدار میں آئے، ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر مجھ تک 18 وزرائے اعظم عوامی مینڈیٹ سے اقتدار میں آئے اور اوسطاً ہر وزیراعظم کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ملا، ایک وزیراعظم کو پھانسی چڑھا دیا گیا اور دوسرے کو ملک بدر کر دیا گیا، محترمہ بے نظیر بھٹو بھی گولی کا نشانہ بنیں، حتیٰ کہ فوجی آمروں نے جو وزرائے اعظم اپنی مرضی سے بنائے، ان کو بھی مدت نہیں پوری کرنے دی گئی، میرے یہ سوالات ہیں جن کے میں جوابات مانگ رہا ہوں، سیاستدانوں، میڈیا، سول سوسائٹی سے یہ جواب مانگ رہا ہوں کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا اور کہاں جا کر رکے گا۔ میرا سوال یہ بھی ہے کہ پانامہ کیس میں جب پہلی مرتبہ ایک رٹ عدالت میں دائر کی گئی تو اسے ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا گیا تھا، اسے دوبارہ قابل سماعت قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وٹس ایپ کے حال کا سلسلہ بھی سب کے سامنے ہے اور جے آئی ٹی میں وہ لوگ شامل کئے گئے جو ہمارے کٹر مخالف تھے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا۔ نیب عدالت کے فیصلے کے خلاف جن کے پاس ہم نے اپیل دائر کرنی ہے وہ خود مانیٹرنگ کریں گے تو ہم کسے وکیل کریں اور کس سے انصاف مانگیں۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ نااہلی کا فیصلہ غالباً ہو چکا تھا تو یہ بتا دیجئے کہ یہ فیصلہ کہاں ہوا تھا، جس پر نواز شریف نے کہا کہ میں شروع میں ہی حالات حاضرہ کا آپ سے تبصرہ کر چکا ہوں، صرف اس وقت اتنا کہنا ہی کافی ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان کے دور حکومت میں کسی ایک افسر کی ترقی کا معاملہ تھا اور معزز عدالت کے ایک جج نے ترقی کے اس کیس کو جواز بنا کر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وزیراعظم کو پتا ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں ان کیلئے کافی جگہ ہے اور یہ اتنی دور نہیں ہے، یہ ریمارکس آنے پر جب میں نے چیک کیا تو ایسی کوئی فائل وزیراعظم کے دفتر میں زیر التواء نہیں تھی، میں نے معزز جج کے ان نا مناسب ریمارکس کا معاملہ اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے پاس اٹھایا اور انہیں ایک خط لکھا لیکن آج تک مجھے اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ جی ٹی روڈ پر جانا ایک بڑا سکیورٹی رسک بھی ہو سکتا ہے جس پر نواز شریف نے واضح کیا کہ ملک و قوم کی خاطر کبھی رسک بھی لینے پڑتے ہیں میں نے تو ججز کی بحالی کیلئے بھی رسک لیا تھا اور اب میں جی ٹی روڈ پر جا رہا ہوں تو یہ خود کو بحال کرانے کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کی سمت درست کرنے کیلئے جا رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ پاکستان آئین و قانون کے راستے پر چلے، ملک کی سمت درست کرنا وزارت عظمیٰ سے بڑی بات ہو گی، میرا روڈ میپ کسی سے تصادم کا نہیں ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت آج بھی قائم ہے میں نے این آر او کرنے سے انکار کر دیا تھا جب میں جدہ سے پاکستان آ رہا تھا تو اس وقت جنرل (ر) پرویز مشرف نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ آپ مل لیں، اس میں آپ کا فائدہ ہے لیکن میں نے اصولوں اور نظرئیے کی خاطر انکار کر دیا، جن لوگوں نے این آر او کیا تھا اس پر مجھے دکھ ہوا تھا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ عدالت میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ نا صرف پاکستانی بلکہ عالمی میڈیا میں بھی نااہلی کے فیصلے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا، عوامی مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے، اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا اگر ایسا نہ ہوا تو ملک اس طرح نہیں چل سکے گا، میں ایک نظریاتی آدمی ہوں، مجھے اقتدار کی نہیں اقدار کی پرواہ ہے، جب ایک سینئر اخبار نویس اور ٹی وی اینکر نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا نام لئے بغیر یہ کہا کہ 2016ء میں آپ پر مدت ملازمت میں توسیع کیلئے جس شخص نے بہت کوششیں کیں آپ نے اسے اتنی اچھی سعودی عرب میں ملازمت کیوں دلوائی، جس پر نوازشریف نے واضح طور پر کہا کہ آپ نے ابھی کسی کی مدت ملازمت میں توسیع کا جو سوال کیا ہے میں اگر نظریاتی نہ ہوتا تو اس وقت سودے بازی کر چکا ہوتا، میں اس معاملے پر مزید بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ جب وزیراعظم سے ایک اخبار نویس نے نیویارک ٹائمز کے آج شائع ہونے والے ایک کارٹون کا ذکر کیا تو وزیراعظم نے کہا کہ اس کارٹون میں پاکستان کا جو تشخص عالمی سطح پر پیش کیا گیا ہے اس پر افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب عدالتی فیصلہ آیا تو فوری طور پر وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑ دی، اسمبلی نہیں توڑی، حالانکہ نئے الیکشن کا آپشن موجود تھا، نیا وزیراعظم منتخب کرایا گیا۔ جج کہتے تھے کہ مشرف کو عدالت میں پیش کیا جائے اور وہ ہسپتال چلے گئے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سمیت دیگر جے آئی ٹی کے متنازعہ معاملات پر ہم نے عدالت میں اعتراض کئے جنہیں سنا نہیں گیا، انہوں نے کہا کہ میرے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ بطور وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیش نہ ہوں اور یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ اگر جے آئی ٹی میں پیش ہونا ہی ہے تو وزارت عظمیٰ سے استعفی دے کر پیش ہوں جس پر میں نے کہا کہ میں آخری حد تک جائوں گا اور میں کسی کے سامنے شرمسار نہیں ہونا چاہتا، اس لئے آخر وقت تک رہا اور عدالت نے جس بنیاد پر نا اہل قرار دیا اس حوالے سے عوام کی رائے سب کے سامنے ہے۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا آپ آصف زرداری سے سیاسی ڈائیلاگ کریں گے تو انہوں نے کہا کہ سب کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کو تیار ہیں، نوبل مشن کیلئے کام کر رہا ہوں کھیل تماشا ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت آئین پر چل رہا ہے، وہاں کسی وزیراعظم کو آئینی مدت سے پہلے نہیں ہٹایا گیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان میں بھی وزرائے اعظم اپنی مدت پوری کرتے ہیں، وہاں اب کوئی ایڈونچر نہیں ہو رہا اور نہ ہی کہیں ڈکٹیٹر شپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ عدالتوں نے ماضی میں ایک فوجی آمر کو نہ صرف تحفظ دیا بلکہ اسے تین سال کی مدت دے کر آئین میں ترامیم کی اجازت بھی دی، اب یہ سب کچھ بدلنا چاہیے۔ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ بجلی کے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کیا گیا اور لوڈشیڈنگ میں نمایاں کمی ہوئی، سٹاک ایکسچینج 19ہزار سے 54ہزار کی بلندی پر پہنچی، ترقی کی شرح 5.3 تک پہنچائی گئی، لواری ٹنل کو مکمل کیا گیا، سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے، بلوچستان اور کراچی میں امن قائم کیا گیا، خیبرپختونخوا میں ہم نے مینڈیٹ کا احترام کیا، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے مکمل تعاون کیا گیا، سیاسی ماحول ناتجربہ کار ٹیم نے خراب کرنے کی کوشش کی، مجھے عمران خان یا تحریک انصاف کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اور سوال پر نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کبھی سودے بازی نہیں کی،سابق امریکی صدر سینئر بش نے دبائو ڈالا تھا، لیکن ہم نے اس دبائو کو ملک و قوم کے مفاد میں مسترد کر دیا تھا، جبکہ 1998 میں ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر بہت پیشکشیں ہوئیں، دبائو بھی ڈالا گیا لیکن ہم نے ملک کی سالمیت کے تحفظ کیلئے کبھی کمپرومائز نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ اپنے ہی چند لوگ یہ مشورے دیتے تھے کہ ایٹمی دھماکے نہ کریں۔ میں نے نہیں کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے، میڈیا نے خود ہی اخذ کیا ہے میرا سوال نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کا سوال ہے۔ مجھے بحال کرنے کے لئے نہیں ناانصافی کے لئے کھڑا ہونا ہوگا، بلاوجہ جملے اور ریمارکس کسنے کی کوئی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا، جج کو نیب کے اوپر بیٹھا دیاگیا جب ہم اپیل کریں گے تو اپیل والے پہلے نگرانی کر رہے ہونگے، میرے آبا و اجداد کا احتساب کرنے والے شرطیں کیوں لگا رہے ہیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’کیا عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے آپ جی ٹی روڈ پر ریلی کے ساتھ جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ ’’میں جی ٹی روڈ سے اپنے گھر جا رہا ہوں‘ عدلیہ پر دبائو ڈالنے کیلئے نہیں جا رہا‘ مجھے اپنے گھر تو جانے دیں ہمیں نیوکلیئر پروگرام کیپ کرنے کا کہا گیا ہم نے نہیں مانا، اربوں ڈالرز کی پیشکشیں کی گئیں، ڈیفنس کمیٹی میں بیٹھنے والوں نے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا مشورہ دیا، کہتے تھے پابندیاں لگ جائیں گی۔ اگر ریویو پٹیشن میں فیصلہ میرے حق میں آجاتا ہے تو میں بھاگ کر آٹھ ماہ کے لئے وزیراعظم نہیں بن جاؤنگا میں وزارت عظمیٰ سے بالاتر ہوکر باتیں کر رہا ہوں۔ علاوہ ازیں گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے پنجاب ہائوس اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال، باہمی دلچسپی کے امور اور اہم ملکی و قومی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ نواز شریف کی قیادت میں ملک نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام نہ صرف بلند کیا ہے بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کی ایسی مضبوط بنیاد رکھی ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ملاقات میں ملتان سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور گورنر پنجاب کے صاحبزادے آصف رجوانہ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ کی خیریت بھی دریافت کی جو حال ہی میں دل کا کامیاب آپریشن کرواکر وطن واپس آئے ہیں۔ مزید برآں پنجاب ہائوس میں وکلا وفد سے ملاقات میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ دوبارہ وزیراعظم بننے میں کوئی دلچسپی نہیں‘ اب میری جدوجہد قانون اور آئین کی بالادستی کیلئے ہے‘ پانامہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس میں مجھے نااہل کیا جا سکے مجھے ایسے معاملے میں نااہل کیا گیا جو میرے متعلق نہیں تھا۔