سیٹھی صاحب" جی آیاں نوں"
پی سی بی کے نئے گورننگ بورڈ اراکین آج پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چئیرمین یعنی نجم سیٹھی کو آئندہ تین سال کے لیے منتخب کریں گے۔ چار محکموں اور تین علاقائی تنظیموں کے نمائندے انتخابی عمل کا حصہ ہوں گے۔ اس عمل کے ساتھ ہی وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹرز کی پہلی منزل پر واقع ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ کے دفتر سے چئیرمین کی کرسی پر منتقل ہو جائیں گے۔ ایک ایسی کرسی جہاں انکے بقول چند سال پہلے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے دھکا دیا تھا۔ اس دھکے کے بعد نجم سیٹھی کا سب سے بڑا چھکا تو پاکستان سپر لیگ اور دوسرے ایڈیشن کے فائنل کے لاہور میں انعقاد کی صورت میں تھا۔ دو ہزار چودہ سے آج تک نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ کی طاقتور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ اب وہ نئی اننگز کے لیے تیار ہیں۔ آمد کے ساتھ ہی انہیں ایک مرتبہ پھر عدالتی معاملات کا بھی سامنا ہو گا۔ ان کے سب سے بڑے حریف سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ ذکا اشرف تو بالکل خاموش ہیں شاید کوئی "این آر او" طے پا گیا ہے۔ ورنہ ٹی وی پروگراموں میں گرجنے اور برسنے والے ذکا اشرف کی طرف سے بھی کم از کم ایک پٹیشن تو ضرور دائر کی جاتی۔ بہرحال سب سے بہتر یہی ہے کہ کھیل کے معاملات عدالت کے بجائے کھیل کے میدان ہی میں رہیں۔
چند روز قبل ہماری پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود سے بات ہوئی انکا انٹرویو نوائے وقت میں شائع بھی ہوا "کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے نجم سیٹھی موزوں امیدوار ہیں۔ وہ چار سال میں کرکٹ ایڈمنسٹریشن کا تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ معاملات کو سمجھداری کے ساتھ چلانے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر گفتگو کے ذریعے اپنا موقف مضبوط انداز میں پیش کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں"۔ خالد محمود کی طرف سے نجم سیٹھی کی حمایت کو کرکٹ کے حلقوں کو حیرت ہوئی تاہم خالد محمود اپنے موقف پر اس دلیل کے ساتھ قائم رہے کہ کوئی نیا عجوبہ لانے سے بہتر یہی تھا کہ ایک ایسے شخص کو جو گذشتہ چار برس سے قومی و بین الاقوامی سطح پر معاملات کو چلا رہا ہے مختلف افراد کے ساتھ رابطے میں ہے، پی سی بی کے عملے کو اچھی طرح جانتا ہو۔ دوسری طرف آئی سی سی کے سابق سربراہ احسان مانی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کو فراڈ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کی طرف سے دو افراد کو گورننگ بورڈ میں نامزد کرنے کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ احسان مانی کے مطابق یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔ انہوں نے نجم سیٹھی کی طرف سے بھارت کے ساتھ کرکٹ سیریز کے معاہدے کو بھی غلطی قرار دیا تاہم شہریار خان پاکستان کے کیس کو کمزور قرار دینے کا احسان مانی کا موقف مسترد کر دیا۔
نجم سیٹھی ایسے وقت میں چئیرمین بن رہے ہیں جب ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں، پاکستان سپر لیگ کے ذریعے ملکی کرکٹ کمرشلائزیشن کے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے،سٹہ مافیا کی نظریں پاکستان پر ہیں اس لعنت سے کیسے بچنا ہے۔ سپاٹ فکسنگ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔صرف کھلاڑی ہی نہیں اسکے پیچھے چھپے کرداروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ کھلاڑیوں کو سزا دینے کے مرحلے کے بعد سارے کیس کی ایف آئی آئی سے تحقیقات ضروری ہیں۔ کیس کے آغاز میں پی سی بی نے ایف آئی اے کو روک دیا تھا لیکن جب کرکٹرز کو سزا مل جائے تو بعد میں اس سطح پر بھی تحقیقات میں تعاون ضروری ہے تاکہ اس مکروہ کھیل میں شامل افراد کو مستقبل میں پاکستان کرکٹ کو دوبارہ نقصان پہنچانے کا موقع نہ مل سکے۔ پاکستان کو قومی و بین الاقوامی سطح پر سنجیدہ نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے، ڈومیسٹک کرکٹ کو سپانسر شپ کی بنیادوں پر لانے کا اہم مسئلہ درپیش ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں غیر ضروری سٹاف کی وجہ سے خزانے پر ہر مہینے بڑھتے ہوئے بوجھ کا منصفانہ انداز میں فیصلہ کرنا ہے۔ وویمن کرکٹ میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ میرٹ کے قتل عام کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کا مشکل ہدف ان کے سامنے ہے۔ غیر ضروری افراد کو فارغ کرتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ نہیں کی جائے گی۔ سیٹھی صاحب خوش آمدید پاکستان کرکٹ کا مستقبل آپکے پاس امانت رکھا جا رہا ہے اس میں خیانت نہ ہونے کی ہم امید کرتے ہیں۔