سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد نواز شریف کا اسلام آباد سے لاہور کا سفر
فرخ سعید خواجہ
وزیراعظم محمد نوازشریف کی سپریم کورٹ کے لارجر بنچ سے نااہلی کے بعد ان کا وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم ہاﺅس خالی کرکے پنجاب ہاﺅس اسلام آباد چلے جانا اس بات کا غماز تھا کہ وہ عدالتی فیصلے پر بلا چوں و چرا عمل کررہے ہیں تاہم فیصلے کے بارے میں ملک کے بڑے بڑے قانون دانوں کے انگلیاں اٹھانے اور بعض کی طرف سے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں لے جانے کی باتوں نے پنجاب ہاﺅس اسلام آباد سے اپنی رہائش گاہ مری میں مقیم سابق وزیراعظم کیلئے سوچ کے نئے دروازے کھول دیئے۔ ان کے سیاسی ساتھی جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا یا اتحادی جماعتوں کے ساتھ ان کو رائے دے رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے پر تحفظات کے باوجود عمل کرنا بے شک اچھا اقدام ہے لیکن اپنے سیاسی وجود کا اعتراف کرانا بھی ضروری ہے۔ رفقاءسے مشاورت کے بعد نوازشریف نے لاہور جانے کیلئے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا لیکن سکیورٹی اداروں نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ایک وقت آیا کہ نوازشریف نے طے کرلیا کہ 6 اگست کو وہ بذریعہ موٹروے لاہور جائیں گے۔ اس وقت تک مسلم لیگ (ن) کے قائد اپنے پیروکاروں کو ان کا استقبال کرنے کیلئے سڑک پر آنے کی کال دینے سے گریزاں تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور مسلم لیگ (ن) پنجاب کے سابق جنرل سیکرٹری خواجہ سعد رفیق، نوازشریف کے پولیٹکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی‘ ٰ نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازشریف اور ان کی دست راست مریم اورنگ زیب 6 اگست کو انکے سفر کے دوران استقبال کو دیکھنے کے خواہاں تھے۔ نوازشریف مری سے اسلام آباد آئے تو راستے میںبھارہ کہو کے مقام پر عوام کے والہانہ استقبال نے انہیں سوچنے پر مجبورکردیا۔ پنجاب ہاﺅس میں نوازشریف کی ملک کے سینئر صحافیوں سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات میں نوازشریف کو متعدد صحافیوں نے مشورہ دیا کہ انہیں جی ٹی روڈ سے جانا چاہئے۔ نوازشریف ان کی باتیں سنتے رہے اور خود بولنے میں احتیاط سے کام لیتے رہے۔ صحافیوں کو رخصت کیا تو کسی مہمان صحافی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نوازشریف 6 اگست کو موٹر وے سے جانے کا پروگرام اچانک دو تین روز آگے لے جائیں گے۔ صحافی ابھی اپنی منازل تک نہ پہنچے ہوں گے کہ نوازشریف کے 6 اگست کے بجائے 9 اگست کو موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ سے لاہور جانے کے نئے پروگرام کا اعلان ہوگیا۔ اس مرتبہ اسلام آباد سے لاہور روانگی کیلئے مسلم لیگ (ن) کی اصل قوت اس کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو باضابطہ طور پر ہدایت کی گئی کہ ان کے لاہور جانے والے کارواں میں قافلوں کے ساتھ بھرپور انداز میں شرکت کریں اور سابق وزیراعظم کا ایسا استقبال کریں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک مثال بن جائے۔ نوازشریف نے چودھری نثار علی خان‘ خواجہ سعد رفیق‘ ڈاکٹر آصف کرمانی‘ راجہ اشفاق سرور سمیت پارٹی کے عہدیداران و ممبران اسمبلی کو آن بورڈ لے لیا اور ان پر استقبال اور کارواں کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری ڈال دی۔ وفاقی وزارت داخلہ نے جی ٹی روڈ سے ان کے سفر کو پُرخطر قرار دے دیا۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے نوازشریف کو باز رکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی خطرے کو خاطر میں نہیں لائے۔ نوازشریف کا فیض آباد راولپنڈی سے داتا دربار لاہور تک کا سفر چونکہ پنجاب میں ہے اس لئے وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر شہبازشریف نے نوازشریف اور ان کے چاہنے والوں کے سفر کو خطرے سے بچانے کیلئے اقدامات کے بارے میں سوچ بچار شروع کردی۔ ادھر 7 اگست کو لاہور کے بند روڈ پر ایک ٹرک سٹینڈ میں کھڑے فروٹ سے لدے ٹرک میں زوردار دھماکہ ہوا جس سے لاہور کا بڑا حصہ لرز اٹھا۔ بتایا گیا کہ ٹرک ہفتے کی صبح ٹرکوں کیلئے بنائی گئی پرائیویٹ پارکنگ میں کھڑا تھا۔ وہاں کے عملے نے ٹرک کے ڈرائیور اور کلینر کا نام اور ٹیلی فون نمبر وغیرہ نوٹ کئے تھے۔ پھل نے بدبو چھوڑی تو ان لوگوں کو ٹیلی فون کئے گئے لیکن کوئی نہ آیا تو پولیس کو اطلاع دی گئی لیکن اسی دوران دھماکہ ہوگیا۔ فرانزک رپورٹ آنے پر معلوم ہوگا کہ بارود کی نوعیت کیا تھی تاہم وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان کے مطابق پندرہ سے بیس کلو وزن کا بارود ٹرک پر موجود تھا۔ ٹرک کے دھماکے کے بعد لوگوں کو پریشانی لاحق ہوئی کہ اگر دہشت گردوں کی یہ کارروائی ہے تو نوازشریف کی راہ گزر میں کھڑے ٹرک سے نوازشریف کے استقبالی جلوس کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے امن و امان کیلئے صوبائی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور تمام صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کو اپیل کی جائے کہ وہ سفر کے دوران گاڑی سے باہر نہ نکلیں‘ جس جس مقام پر انہوں نے خطاب کرنا ہے وہاں بلٹ پروف سٹیج فراہم کیا جائے۔
ان حالات میں نوازشریف آج 9 اگست کو پنجاب ہاﺅس سے ڈی چوک آئیں گے اور وہاں سے کارواں کی شکل میں براستہ بلیو ایریا‘ کمیٹی چوک‘ لیاقت باغ چوک سے ہوتے ہوئے مریڑ حسن پل سے کچہری چوک کی طرف مڑیں گے۔ ضلع راولپنڈی میں ان کے استقبال اور کارواں کے انچارج چودھری نثار علی خان ہوں گے۔گوجر خان میں نوازشریف کے کارواں کا استقبال راجہ جاوید اخلاص ایم این اے‘ چودھری ریاض سابق ایم این اے کی قیادت میں مسلم لیگی کارکن کریں گے۔ دینہ کے مقام پر میر پور‘ آزادکشمیر اور ملحقہ علاقوں سے مسلم لیگی نوازشریف کا استقبال کریں گے۔ نوازشریف کا پہلا پڑاﺅ جہلم میں ہوگا جہاں مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی چودھری خادم حسین‘ ملک مطلوب اقبال مہدی خان اور ممبران پنجاب اسمبلی راجہ محمد اویس خان‘ چودھری لال حسین‘ نذر حسین اور مظہر محمد قیاض کی قیادت میں اہل جہلم ان کیلئے چشم براہ ہوں گے۔ جہلم میں ہمارے نوائے وقت کے نمائندے میاں ساجد نے بتایا کہ جہلم میں دریائے جہلم کے کنارے ”ہوٹل ٹیولپ“ میں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کے ٹھہرانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔یہاں ان کیلئے ”مچھلی“ کی خصوصی ڈشیں تیار کی جائیں گی۔ ویسے بھی مچھلی اور بکرے کا گوشت نواز شریف کی پسندیدہ خوراک ہیں البتہ دل کے عارضے نے انہیں کھانے پینے میں خاصا محتاط کردیا ہے۔ سری پائے اور کھد میاں صاحب کی مرغوب غذا کے طور پر مشہور ہیں لیکن غالباً یہ جوانی کا قصہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دریائے جہلم کے کنارے جس ہوٹل میں نوازشریف قیام کریں گے اس کے چائنیز‘ پاکستانی‘ یورپین کھانے خاصے مشہور ہیں یقیناً نوازشریف ان سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔
نوازشریف کے کارواں کا دوسرا مرحلہ جہلم سے شروع ہوگا۔ جہلم سے گجرات تک جی ٹی روڈ پر سرائے عالمگیر‘ کھاریاں‘ لالہ موسیٰ اور گجرات دس دس‘ پندرہ پندرہ منٹ کی مسافت پر ہیں۔ ضلع گجرات سے مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی اسمبلی چودھری عابد رضا‘ چودھری جعفر اقبال اور نوابزادہ مظہر علی سمت ارکان پنجاب اسمبلی ملک حنیف اعوان‘ حاجی ناصر علی‘ چودھری شبیر احمد‘ میاں طارق محمود‘ چودھری محمد اشرف‘ حاجی عمران ظفر‘ معین نواز وڑائچ‘ نوابزادہ حیدر مہدی میں سے ہر کوئی اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے ہزار‘ ہزار‘ دو‘ دو ہزار آدمی جی ٹی روڈ پر لانے کی استطاعت رکھتا ہے۔ گجرات کے ایک اور معروف مسلم لیگی رہنما حاجی اورنگ زیب بٹ ہیں ان کو نوازشریف کا شیدائی قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے گجرات کی حدود کے آغاز میں واقع اپنے گھر کی وسیع و عریض بیرونی دیوار کو توڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وسیع پنڈال کی شکل اس لئے دی ہے کہ میاں نوازشریف یہاں خطاب کریں گے۔ ادھر منڈی بہاﺅ الدین بھی مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے۔ اگرچہ اس کا جی ٹی روڈ سے خاصا فاصلہ ہے لیکن ناصر بوسال ایم این اے‘ سید طارق رضوی ایم پی اے‘ صوبائی وزیر حمیدہ وحید الدین‘ سید محفوظ مشہدی اور شفقت محمود کی قیادت میں منڈی بہاﺅ الدین کے لوگوں کا استقبالی قافلہ بھی گجرات میں نوازشریف کا استقبال کرے گا۔ علاوہ ازیں کنجاہ‘ جلال پور جٹاں کے مسلم لیگ بھی جی ٹی روڈ گجرات ہی میں نوازشریف کیلئے چشم براہ ہوں گے۔ گجرات سے گوجرانوالہ تک نوازشریف کے کارواں کے بارے میں سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ تاحد نگاہ سر ہی سر ہوں گے۔ گوجرانوالہ میں غلام دستگیر خان اپنے فرزند وزیر دفاع خرم دستگیر خان سمیت وزیر مملکت حاجی عثمان ابراہیم‘ میاں مدثر قیوم ناہرہ‘ رانا عمر نذیر احمد خان‘ ممبران پنجاب اسمبلی چودھری محمد اقبال‘ عبدالرﺅف مغل‘ مستنصر گوندل‘ توفیق بٹ‘ عمران خالد بٹ‘ پیر غلام فرید‘ چودھری اشرف وڑائچ مسلم لیگی کارکنوں سمیت نوازشریف کا استقبال کریں گے۔ گوجرانوالہ سے ہمارے نمائندے فرحان میر نے بتایا کہ نوازشریف کا قیام خان غلام دستگیر خاں کی صاحبزادی کی رہائش گاہ۔ نزد ”چند دا قلعہ“ میں ہو گا۔ جہاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کی تواضع گوجرانوالہ کی سوغات ”چڑے“ کی مختلف ڈشوں سمیت بٹیر، بریانی، قورمہ اور تکہ کباب سے کی جائے گی۔
گوجرانوالہ سے لاہور کے لئے کارواں روانہ ہو گا تو گوجرانوالہ کے سپوتوں کے علاوہ حافظ آباد سے آئی ہوئی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ شاہد حسن بھٹی ایم این اے اور اسد اللہ ارائیں، پیر شعیب ایم پی اے کی قیادت میں حافظ آباد سے آیا ہوا قافلہ بھی نوازشریف کے کاروان میں ساتھ شامل ہو جائے گا۔ کامونکے میں مسلم لیگ ن پنجاب کے سابق جنرل سیکرٹری رانا نذیر احمد خان سمیت سیالکوٹ سے آنے والے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف اور صوبائی وزیر منشاءاللہ بٹ کی قیادت میں آنے والا عظیم الشان قافلہ ان کا نہ صرف استقبال کرئے گا بلکہ ان کے ساتھ لاہور کے لیے روانہ ہو گا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد، ارکان قومی اسمبلی سید افتخار الحسن شاہ عرف ظاہرے شاہ ارمغانی سبحانی، رانا شمیم احمد خان، ارشد وڑائچ اور ممبران صوبائی اسمبلی چودھری اکرم، رانا عبدالستار، رانا افضل، محسن اشرف کے ساتھ آئے ان کے ہزاروں ساتھی بھی یہاں موجود ہوں گے۔ کالا شاہ کاکو کے مقام پر فیصل آباد ڈویژن کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ آنے والے قافلے نواشریف کا استقبال کریں گے جبکہ شاہدرہ کے مقام پر ننکانہ سے وفاقی وزیر برجس طاہر، رانا ارشد، شیخپورہ سے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین ، جاوید لطیف ایم این اے، عارف سندھیلہ ایم پی اے ، پیر اشرف رسول ایم پی اے، چودھری سجاد گجر سمیت سید مشتاق حسین شاہ، خلیل ورک اور ان کے ساتھی جبکہ قصور سے رانا حیات خان، رانا اسحاق، رانا سکندر حیات ملک رشید احمد خان، شیخ وسیم اور احسن رضا خان اور ان کے ساتھی استقبال کریں گے۔ لاہور میں راوی پل سے پہلے ملک ریاض ایم این اے، صوبائی وزیر خواجہ عمران نذیر، غزالی سلیم بٹ اور ان کے ساتھی نواز شریف کا استقبال کریں گے۔ راوی پل سے داتا دربار تک لاہور کے قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے ساتھیوں سمیت استقبال کے لئے موجود ہوں گے۔ پیر مکی کے مقام پر خواجہ احمد حسان، سید توصیف شاہ، خواجہ سلمان رفیق، رابعہ فاروقی سمیت ملک افضل کھوکھر ملک سیف الملوک اور ان کے ساتھی نوازشریف کا استقبال کریں گے۔ نوازشریف کے کاروان کا اختتام داتا دربار پر ہو گا جہاں حمزہ شہباز، پرویز ملک، صوبائی وزیر بلال یاسین، ماجد ظہور ایم پی اے میاں نوازشریف اور ان کے ہمراہ آنے والی مریم نوازشریف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، خرم دستگیر، رانا تنویر اور دیگر رہنماﺅں کا استقبال کریں گے۔ اس بارے کا قوی امکان ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف بھی داتا دربار پر موجود ہوں۔ نوازشریف کے استقبال کےلئے راولپنڈی سے داتا دربار لاہور تک نوازشریف کی تصاویر والے ہزاروں کی تعداد میں فلیکس اور بینر لگائے گئے ہیں جن پر درج ہے ”دلوں کا وزیراعظم نواز شریف“ ہمارا رہبر نوازشریف، میرا لیڈر نوازشریف، دیکھو دیکھو کون آیا صادق و امین آیا صادق و آمین آیا ۔ لوگوں کا جوش و خروش یقیناً مسلم لیگ ن کے لیے حوصلے کا سبب بنے گا۔