جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مکرمی! آج ہماری سیاست پہلوانوں کا اکھاڑہ بن کر رہ گئی ہے ایک دوسرے پر دشنام طرازی نے اہل ادب کو اتنا حیران و پریشان کر دیا ہے کہ وہ اہل لکھنو کی زبان وبیان بھول گئے ہیں لکھنو کے لوگ بھی شاعری میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے جو اب ہمارے سیاسی لیڈر پارلیمنٹ ، پریس کانفرنس ، ریلیوں ، جلوسوں ، اورٹاک شو میں استعما ل کرنے لگے ہیں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ہم نے اس لیے ان لیڈروں کو ووٹ دیا تھا کہ آنے والی نسل کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف زہر کھولیں ایک دوسرے کے لیے نفرت کا بیج بو ئیںان میں بھی اپنے راہنماؤں کی طرح برداشت ، اورصبر کے جذبات مفقود ہو جائیں کیا اسلام ہمیں اقتدار کے لیے گالی گلوچ سکھاتا ہے کیا قوم کے راہنماؤں کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایسی زبان استعما ل کریں کہ شیطان بھی خوشی کے شادیانے بجائے ۔ شاعر مشرق نے سچ ہی کہا تھا اکر سیاست سے اسلامی طور طریقے نکل جائیں تو پھر صرف چنگیز کی خون خواری رہ جاتی ہے آج پاکستا ن میں بھی چنگیزی سیاست رہ گئی ہے۔14اگست قریب ہے ہم قوم کے بانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو سیکنڈلائز کر رہے ہیں ایک دوسرے کی خامیوں کو ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھا سکیں کیا قوم کے راہنما ؤں کا یہ طریقہ ہوتا ہے۔ (مس طاہرہ جبین تاراؔ … لاہور)