• news
  • image

پی ایچ ایف کی سمت کیا درست ہے؟

کیا پاکستان ہاکی فیڈریشن اچھے انداز میں کام کر رہی ہے، کیا معاملات پیشہ وارانہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں، کیا پاکستان ہاکی ماضی والے اعلی مقام پر واپس آ سکتی ہے، کیا پاکستان ہاکی میں اپنے کھوئے ہوئے اعزازات دوبارہ حاصل کر سکتا ہے، کیا موجودہ انتظامیہ کے اقدامات سے قومی کھیل کے مسائل کم ہوں گے، کیا کامیاب کھلاڑی کی حیثیت سے صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے اولمپئین شہباز احمد سینئر منتظم کے طور پر کامیاب ہو پائیں گے؟؟

یہ وہ سوالات ہیں جو ان دنوں ہاکی کے حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ پاکستان ہاکی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات بھی موجودہ سیٹ اپ کا حصہ ہیں۔ماضی کے عظیم کھلاڑی مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتے نظر آتے ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر ٹیم کی کارکردگی ایسی نہیں کہ مستقبل قریب میں بھی اچھے نتائج کی توقع کی جا سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن انتظامیہ کو اپنی سینئر ٹیم سے بہت زیادہ توقعات نہیں ہیں شہباز احمد سینئر متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارے پاس ورلڈ کلاس کھلاڑی موجود نہیں ہیں۔ورلڈ ہاکی لیگ میں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی نے تو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پی ایچ ایف کے بعض اقدامات تو قابل تعریف ہیں۔ کھلاڑیوں کی ملازمتوں کا بندوبست کرنا، فزیکل فٹنس کو بہتر بنانے کے لیے پروفیشنل ٹریننگ کیمپوں کا انعقاد، بیرون ممالک لیگ میں جونئیر کھلاڑیوں کو شامل کروانا، آسٹریلیا میں انڈر ایٹین ٹیم کو ٹریننگ کے لیے بھجوانا لیکن ساتھ ہی کچھ ایسے فیصلے بھی نظر آتے ہیں جو کسی بھی طور ایک قومی ادارے شایان شان نہیں۔
بد انتظامی کی تازہ مثال فلائنگ ہارس سمیع اللہ کو ان سے مشاورت اور رضامندی لیے بغیر ٹیلنٹ ہنٹ کا سربراہ مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے۔ سمیع کہتے ہیں کہ موجودہ انتظامیہ کی طرف سے یہ تیسرا خط ہے جو مشاورت کے بغیر جاری کر دیا گیا ہے میں قومی کھیل کی بہتری کے لیے کام کرنے کو تیار ہوں لیکن کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ تو کرے۔ پہلے انہوں نے تھنک ٹینک میں شامل کرنے کا خط بھیجا، پھر ایک اور بورڈ میں شامل کرنے کا خط بھیجا اور اب تازہ کارروائی ٹیلنٹ ہنٹ سربراہ کے نام پر ڈالی گئی ہے۔ اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے بیٹھ کر طے کریں، دو برس میں موجودہ فیڈریشن نے کچھ نہیں کیا اور اسی طرح کام چلتا رہا تو ہم چودہویں سے اٹھارویں پوزیشن پر پہنچ جائیں گے۔ میں نے دو سال قبل انٹر بورڈ مقابلوں سے 33 لڑکے منتخب کر کے فیڈریشن کو دیے تھے انکا کیمپ آج تک نہیں لگا کیا ایسے کام کیا جاتا ہے؟؟
سمیع اللہ کا نقطہ نظر اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ کیا پاکستان ہاکی فیڈریشن یہ سمجھتی ہے کہ لوگ انکے تقرر نامے کے انتظار میں بیٹھے ہیں جیسے ہی جاری ہوا بھاگے بھاگے حاضری کے لیے پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ کسی کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مناسب‘ باوقار اور بہتر طریقہ کار کیوں اختیار نہیں کیا جاتا۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ بعض کوچز کو بھی انکی تقرری کا علم میڈیا کے ذریعے ہوا، اسی طرح وویمن سلیکشن کمیٹی میں ممبران کو بھی مشاورت کے بغیر ہی شامل کر لیا گیا۔ بعض نے معذرت کر کے سلیکشن کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔
مجموعی طور پر یہ صورتحال اور اس طرح کے فیصلوں سے ناصرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی فیڈریشن کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ شہباز احمد سینئر کی موجودگی میں ایسے فیصلوں سے لوگ زیادہ حیران ہوتے ہیں کیونکہ شائقین ہاکی ان سے بحثیت منتظم بھی بہترین کارکردگی کی توقع کرتے ہیں ایسی تاریخی کارکردگی جیسے انہوں نے ایک کھلاڑی کی حیثیت سے ملک کا نام روشن کیا تھا۔ شہباز احمد کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ منتظم کی حیثیت سے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ یاد رکھیں جائیں گے یا نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن