• news
  • image

جہلم میں--- نوازشریف خوش آمدید

فرخ سعید خواجہ
سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کے اسلام آباد سے لاہور تک سفر کا پہلا مرحلہ شیڈول کے مطابق جہلم میں پڑائو تھا لیکن راولپنڈی کے مری روڈ پر وہاں کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کے ساتھیوں‘ ووٹروں اور سپورٹروں کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے عقیل انجم اور ڈاکٹر طارق فضل کی قیادت میں آئے ہوئے لوگوں سمیت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اور آزادکشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کے وزراء اور ساتھیوں، خیبر پختونخوا سے امیر مقام کی قیادت میں آنے والے مسلم لیگیوں اور مری ستیانہ سے راجہ اشفاق سرور کی قیادت میں آنے والے نوازشریف کے متوالوں کی بہت بڑی تعداد کے باعث مری روڈ پر ٹریفک جام ہوگئی۔ راولپنڈی سے این اے 55 اور این اے 56 سے میئر راولپنڈی سردار نسیم سمیت حنیف عباسی، شکیل اعوان کی قیادت میں آنے والے افراد کی کثیر تعداد نے رہی سہی کسر نکال دی یوں نوازشریف کا جلوس چیونٹی کی رفتار سے چلتا رہا اور انہیں رات راولپنڈی میں ہی قیام کرنا پڑا۔ ادھر روات، گوجرانوالہ‘ سوہاوہ‘ دینہ اور جہلم میں نوازشریف کے چاہنے والے شدید گرمی اور حبس میں ان کا انتظار کرتے رہ گئے۔ چکوال سے استقبال کے لئے جی ٹی روڈ پر آنے والوں کو بھی مایوس لوٹنا پڑا۔ نوازشریف کے ساتھ سفر کرنے والے وفاقی وزیر خواجہ سعدرفیق نے نوائے وقت کو بتایا کہ نوازشریف چاہتے تھے کہ پروگرام کے مطابق ان کا کاروان چلتا رہے اور جہلم میں قیام کریں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہمارے سیاسی مخالفین نے سست روی کے حوالے سے جو کچھ کہا سر آنکھوں پر لیکن آج ہم نے طے کیا کہ تیز رفتاری کے ساتھ اپنی منزل جہلم تک پہنچیں گے۔ سو روات‘ سوہاوہ‘ دینہ سمیت جہاں جہاں آبادی تھی وہاں کاروان جمہوریت رکتا ہوا جہلم آ پہنچا ہے۔ ہمارے اپوزیشن کے مہربانوں نے اس پر کل کے برعکس آج اس بات کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ ہماری رفتار تیز کیوں ہے، اس سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ نوازشریف کے سیاسی مخالف محض ان کی مخالفت کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ نوازشریف جس عوامی مینڈیٹ کی پاسبانی کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں وہ کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے۔ جمعرات کو راولپنڈی کے پنجاب ہائوس کے باہر اورکچہری چوک میں صبح سویرے سے نوازشریف کے متوالے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ملک ابرار احمد ایم این اے اور ان کے بھائی ملک افتخاراحمد کی قیادت میں ایک بڑا قافلہ آیا تھا۔ نوازشریف کی گاڑی جونہی پنجاب ہائوس راولپنڈی سے باہر نکلی وہاں جمع لوگوں نے دلوں کا وزیراعظم نوازشریف‘ ہمارا لیڈر نوازشریف‘ ہمارا رہبر نوازشریف اور شیر شیر کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ نوازشریف استقبالی ہجوم کو ہاتھ ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ کاروان جمہوریت نے کچہری چوک سے روات تک کا سفر فراٹے بھرتے طے کیا۔ روات پر راولپنڈی کے قومی اسمبلی کے حلقہ 52 کے لوگ بہت بڑی تعداد میں نوازشریف کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ انہوں نے منوں پھولوں کی پتیاں ان کی گاڑی پر نچھاور کیں لیکن یہاں لوگ چودھری نثارعلی خان کی عدم موجودگی کو بہت محسوس کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ کمر درد کی وجہ سے چودھری صاحب نے نوازشریف کو پیشگی معذرت کرلی تھی۔ ان کی عدم موجودگی پر لوگوں کی زبان کو کون روک سکتا ہے۔ روات سے مندرہ اور پھر گوجرخان تک فاصلہ بھی تیز رفتاری سے طے کیا گیا۔ گوجرخان میں این اے 151 کے رکن قومی اسمبلی راجہ جاوید اخلاص اور سابق رکن قومی اسمبلی وسابق صوبائی وزیر چودھری ریاض نے اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نوازشریف کا استقبال کیا۔ نوازشریف یہاں رکے اور مختصر تقریر کرکے آگے بڑھ گئے۔جہلم میں اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے کہا مجھے عوام نے اسلام آباد بھیجا تھا لیکن اسلام آباد والوں نے گھر بھیج دیا ہے۔ کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے کبھی کوئی جج عوام کے ووٹ کے پرچی پھاڑ کر عوام کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے۔ کبھی دھرنے والے آ جاتے ہیں کبھی کینیڈا کے شہری مولوی صاحب آ جاتے ہیں جنہوں نے ملکہ برطانیہ کی اطاعت کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ مولوی صاحب ہر تین ماہ بعد پاکستان کیا لینے آتا ہے۔ انہوں نے کہا ان مولوی صاحب کے دل میں نہ جانے قوم کا کیا درد اٹھتا ہے جو انہیں یہاں لے آتا ہے۔ انہوں نے کہا اس ملک میں کوئی ایسی عدالت ہے جو ڈکٹیٹر کو سزا دے ڈکٹیٹر قانون اور آئین توڑتے ہیں عدالتیں ان کو قانونی حیثیت دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا میری نااہلی میری نہیں عوام کی توہین ہے۔ ایک ڈکٹیٹر کمر کی درد کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر چلا جاتا ہے انہوں نے کہا میں پوچھنا چاہتا ہوں جب میں نے کرپشن نہیں کی تو مجھے کیوں نکالا گیا۔ انہوں نے کہا ضرورت اس امر کی ہے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ عوام کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہا روش بدلنی ہو گی۔ آئین شکنی برداشت نہیں۔ میرا ایجنڈا آئین اور قانون کی بالادستی ہے۔ میری جدوجہد عوام کے لئے ہے۔ انہوں نے کہا میں نے وعدہ کیا کہ میں ملک سے اندھیرے ختم کر دوں گا۔ اب روشنیاں آنی شروع ہو گئی تھیں لیکن عوام کے مینڈیٹ کی توہین کر دی گئی۔
سوہاوہ اور دینہ میں بھی ان کا بھرپور استقبال ہوا۔ دینہ میں بھی نوازشریف نے مختصر تقریر کی۔ دینہ میں آزادکشمیر میرپور سے آنے والے کشمیریوں کی بڑی تعداد نوازشریف کے استقبال کیلئے موجود تھی۔ دینہ سے جہلم تک کا سفر بھی خاصا تیز رفتاری سے طے کیا گیا۔ عام خیال تھا نوازشریف گوجرانوالہ پہنچ کر ہی دم لینگے اور وہیں رات گزاریں گے۔ جہلم میں جی ٹی روڈ پر ارکان قومی اسمبلی چودھری خادم حسین‘ ملک مطلوب اقبال مہدی خان اور ممبران پنجاب اسمبلی راجہ محمد اویس خان‘ چودھری لال حسین‘ نذر حسین اور مظہر محمد فیاض کی قیادت میں مسلم لیگیوں نے بہت بڑی تعداد میں نواز شریف کا استقبال کیا۔ یہاں انہوں نے انتہائی جذباتی تقریر کی۔ ان کی تقریر کے اختتام پر خواجہ سعد رفیق نے اعلان کیا کہ نوازشریف آج رات جہلم ہی میں قیام کریں گے۔ جہلم میں ان کا قیام دریائے جہلم کے کنارے ٹیولپ ہوٹل میں کروایا گیا‘ جسے مسلم لیگ(ن) کے متوالوں نے دو روز سے بک کر رکھا ہے۔ یہاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کیلئے عشائیے کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا جبکہ کاروان جمہوریت میں شریک لوگوں کیلئے بھی پرتکلف کھانے کا بندوبست تھا۔ جہلم سے ہمارے نمائندے میاں ساجد نے بتایا کہ نوازشریف اور دیگر مہمانوں کیلئے مچھلی کی خصوصی ڈشیں تیار کی گئی تھیں جبکہ بکرے کے گوشت کی ڈشیں الگ تھیں۔ پلائو اور نان روٹی کا بھی بندوبست تھا۔ نوازشریف کے دست راست سیدزعیم قادری نے بتایا ہے کہ نوازشریف جہلم میں آرام کرنے کے بعد صبح سویرے اٹھ کر جہلم کے مسلم لیگی وفود سے ملاقاتیں کریں گے اور پھر تیسرے مرحلے میں جہلم سے گوجرانوالہ کا سفر کریں گے۔ جمعہ کی شب وہ گوجرانوالہ میں شیر گوجرانوالہ غلام دستگیرخان کی صاحبزادی اور وزیر دفاع خرم دستگیر خان کی ہمشیرہ کیے رہائش گاہ پر گزاریں گے جن کا مکان خالی کروا کر وہاں ان کے قیام کا بندوست کیا گیا ہے۔ ہفتہ کی صبح گوجرانوالہ سے لاہور کا آخری مرحلہ شروع ہوگا اور توقع ہے کہ وہ ہفتہ کی شب داتا کی نگری پہنچیں گے، جہاں حمزہ شہباز اور پرویز ملک سمیت بلال یاسین اور ماجد ظہور ان کا استقبال کرینگے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن