پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں نوازشریف کا کارواں لاہور موضوع گفتگو بنا رہا
قومی اسمبلی کا اجلاس مسلسل دوسرے روز بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف ” لاہور کارواں “ کی وجہ سے اجڑ گےا پارلےمنٹ کی غلام گردشوں مےں نواز شرےف کی تارےخی رےلی موضوع گفتگو بنی رہی اےوان دوسرے روز بھی کورم پورا نہ نہےں ہوا کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے قومی اسمبلی کا اجلاس 17اگست سہ پہر3بجے تک ملتوی کر دیا، جمعرات کو بھی کورم ٹوٹنے کی نشاندہی کرنے کا اعزاز تحریک انصاف کے رکن امجد خان نے کسی اور رکن کو حاصل نہےں کرنے دےا کورم کی نشاندہی پرایم کیو ایم کے رکن سید عبدالوسیم شدےد” ناراضی “ کا اظہار کےا اور کہا کہ آپ لوگوں نے روزانہ کورم کی نشاندہی کرنے کومذاق بنایا ہوا ہے،حکومتی ارکان نہیں آتے تو کیا ہم بھی اپنا کام چھوڑ دیں “۔ اےوان مےں روزانہ کورم کی نشاندہی کر کے کام سے جان چھڑائی جاتی ہے،سب ملے ہوئے ہیں اوپر سے ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں لےکن اندر سے ملے ہوئے ہےں ۔جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران کورم ٹوٹنے کی نشاندہی کی گئی تو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے ایوان میں موجود ارکان کی گنتی کا حکم دے دیا اس دوران ایم کیو ایم کے رکن عبدالوسیم نے قومی اسمبلی مےں ےہ بات نوٹ کی گئی ہے اپوزےشن کی بعض جماعتےں حکومت کے خلاف سےاسی پوائنٹ سکورننگ کے لئے کورم کی نشاندہی کرتی رہتی ہےں اپوزےشن کی بعض جماعتوں کے ارکان کی طرف سے کورم کی نشاندہی کرنے پر اپوزےشن کی ان جماعتوں کی طرف سے شدےد ردعمل کا اظہار کےا جا رہا ہے جو کام کرنے کے لئے اےوان مےں آتی ہےں۔ کورم کی نشاندہی پوری اپوزےشن کی پالےسی نہےں ایوان بالا میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی رپور ٹ بھی پیش کر دی گئی ہے ، وفاقی وزیر خزانہ اسحقٰ ڈار نے کہا کہ امید ہے آئندہ انتخابات نئے قانون کے تحت ہوں گے،انتخابی اصلاحات کے حوالے سے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے وکلائ، سول سوسائٹی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بار اور میڈیا سے تجاویز مانگیں، جس پر 1200 تجاویز ملیں اور 4000 صفحات سے زائد پر مشتمل تھیں، چیئرمین سینٹ نے کہا ہے داخلی کمزوریوں کی وجہ سے عدلیہ، انتظامیہ، آمریتیں سب پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوتی ہیں، داخلی کمزوریوں پر قابو پاتے ہوئے پارلیمنٹ کو پالیسیوں اور فیصلوں کا محور و مرکز بنانا ہو گا۔ طاقت کے مراکز عدلیہ انتظامیہ پارلیمنٹ ہیں مگر پارلیمنٹ داخلی کمزوریوں کے باعث کمزور ترین ادارہ بن کر رہ گیا ہے،انتظامیہ کابینہ پارلیمنٹ پر یلغار کرتی ہے، کبھی عدلیہ اور کبھی آمریتوں کی طرف سے پارلیمنٹ پر حملے ہوتے ہیں، 9وجوہات میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے نہ لینے ،اہم فیصلوں کا اعلان پارلیمنٹ سے باہر ہونا، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی بجائے کل جماعتی کانفرنسوں جیسے فورمز کو اہمیت دینے ،سیاسی معاملات کو سپریم کورٹ میں لے جانا، اہم امور پر پارلیمانی عمل کو نظر انداز کرنا بالخصوص خارجہ داخلی سلامتی عالمی معاہدوں کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنا، قرضوں کی معافی، مالیاتی معاہدوں سے پارلیمنٹ کو آگاہ نہ کرنا،پارلیمانی نگرانی کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنا، اےوان میں وزیراعظم اور وزراءکی عدم موجودگی پارلیمنٹ کے سوالات کا بروقت جواب نہ آنا، وزیراعظم کی طرف سے اہم بیانات کےلئے پارلیمنٹ کی بجائے پریس کانفرنس، قوم سے خطاب اور عوامی اجتماعات کو اہمیت دینا ہاﺅس میں دی جانے والی رولنگ پر عملدرآمد نہ ہونا، عوام اور پارلیمنٹ میں عدم رابطہ، پارلیمانی کمیٹیوں کو نظرانداز کرنا جیسے معاملات شامل ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اجلاس نشستاً گفتاً خالصتاً مصداق نہیں ہونا چاہیے ایسے نہیں اٹھ جانا چاہےے سینٹ میں پیپلز پارٹی نے ملک میں استحکام کےلئے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ حکومتی اتحادی جمعیت علماءاسلام(ف) نے آئینی شقوں 62،63کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والی جماعت کے قول و فعل کے تضاد کو اجاگر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایک طرف ان دفعات کے تحت وزیراعظم کو نکالنے پر یہ جماعتیں مٹھائیاں تقسیم کر رہی ہیں دوسری طرف ان ہی دفعات کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں، پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹرتاج حیدر نے کہا کہ ملک میں وفاقی آئینی عدالت کی ضرورت ہے، جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ اپنا بویا کاٹ رہے ہیں، 62,63 کے فیصلے پر خوشیاں منانے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے نکالنے پر خوش ہیں