داتا کی نگری میں نوازشریف کی آمد
فرخ سعید خواجہ
سابق وزیراعظم محمد نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرفی کے بعد آج اپنے شہر لاہور پہنچ رہے ہیں۔ لاہور میں شاہدرہ سے داتا دربار تک ہر جانب نواز شریف کی تصاویر والے بینر، فلیکس اور لہراتے ہوئے مسلم لیگی جھنڈے عجب منظر دکھا رہے ہیں۔ شاہدرہ سے داتا دربار تک مسلم لیگ (ن) نے گیارہ استقبالیہ پوائنٹس قائم کر رکھے ہیں اور ہر ایک پر سٹیج، لاؤڈ سپیکر، لائٹس کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ ان پوائنٹس پر جمع ہونے والے مسلم لیگی کارکن، ووٹر اور عوام اُن پر منوں پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے۔ اس تمام راستے کو برقی قمقموں سے اس طرح آراستہ کیا گیا ہے کہ رات میں دن کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ نواز شریف کے لاہور میں استقبال کے لئے تمام تر تیاریاں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما و رکن قومی اسمبلی میاں حمزہ شہباز کی قیادت میں کی گئی ہیں جبکہ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی مشاورت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے۔ ماضی قریب میں مسلم لیگ (ن) خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ لیڈروں کو کارکنوں کی کوئی خاص پرواہ نہیں تھی۔ سو مسلم لیگ (ن) کے سیاسی پروگراموں میں مسلم لیگی کارکن جوش و جذبے سے شریک ہونے کی بجائے رنگ بازی کو ترجیح دیتے تھے۔ مقامی لیڈروں کی جانب سے اپنے کارکنوں کو میاں حمزہ کا پیغام دیا جاتا کہ ہر رکن قومی اسمبلی اتنے ہزار کارکن اور ہر رکن صوبائی اسمبلی اتنے ہزار کارکن لے کر پارٹی کے پروگرام میں پہنچے۔ ارکان اسمبلی مقامی عہدیداروں پر ذمہ داری منتقل کر دیتے اور پھر مقررہ وقت پر سیاسی پروگرام میں ہزاروں کی بجائے سینکڑوں افراد کی حاضری ہوتی ان کی بھی غیرسنجیدگی واضح طور پر دکھائی دیتی لیکن پچھلے پانچ روز میں ایک نئی مسلم لیگ سامنے آ رہی ہے۔ راولپنڈی سے لاہور تک مسلم لیگ کا ہر کارکن اتنا متحرک پرجوش اور فعال ہے کہ پٹواریوں کو لانے کا الزام لگانے والوں کو خود اپنی بات کا کھوکھلا پن محسوس ہو رہا ہوگا۔ لاہور میں نواز شریف کے استقبال کو کامیاب تر بنانے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی کمان مکمل طور پر میاں حمزہ شہباز نے سنبھال لی ہے اور نہ صرف لاہور بلکہ شیخوپورہ، ننکانہ اور قصور کے ممبران اسمبلی کے لئے باقاعدہ پروگرام ترتیب دیا ہے کہ کون سا رکن قومی اسمبلی کس راستے سے اپنے لئے مقرر کردہ استقبالیہ پوائنٹ پر پہنچے گا۔ آنے والوں کی گاڑیوں کی الگ الگ مقامات پر پارکنگ کے لئے کونسی جگہ مختص ہو گی اس کا شاندار بندوبست کیا گیا ہے۔ ہر پوائنٹ کے کیمپ انچارج کو وہاں لائٹس، ساؤنڈ سسٹم پھول پتیاں کم از کم تین من، پینے کا پانی اور ڈھول فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے کہ جھنڈے، ٹرانسپورٹ اور قائدین کی تصویریں لاہور آفس مہیا کرے گا۔
مسلم لیگ (ن) نے جمعہ کو میاں نواز شریف کا لاہور میں استقبال کرنا تھا سو اُن کی تیاریاں جمعرات تک مکمل ہو چکی تھیں اور جمعرات کی شب جب یہ معلوم ہو چکا تھا کہ نواز شریف ہفتہ کو لاہور پہنچیں گے اس کے باوجود شاہدرہ سے داتا دربار تک تمام استقبالیہ پوائنٹس پر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہزاروں کارکن رات ایک بجے تک موجود تھے۔ شاہدرہ کے استقبالیہ پوائنٹ پر این اے 118 کے رکن قومی اسمبلی حاجی ملک ریاض اور پی پی 138 کے رکن پنجاب اسمبلی غزالی سلیم بٹ اپنے کارکنوں کا لہو گرما رہے تھے جبکہ شیر شاہدرہ چودھری عبدالواحد مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے ہمراہ مسلم لیگی ترانوں پر رقصاں تھے۔ اُن سے کچھ ہی فاصلے پر راوی پل کراس کر کے لگائے گئے استقبالیہ کیمپ پر چودھری شہباز احمد ایم پی اے، مہر محمود کے ہمراہ این اے 121 اور این اے 123 کے کارکنوں کے ساتھ موجود تھے۔ یہاں بھی منظر شاہدرہ چوک سے مختلف نہیں تھا۔ ٹمبر مارکیٹ پر دو الگ الگ استقبالیہ کیمپ تھے ایک کے انچارج این اے 124 کے ایم این اے شیخ روحیل اصغر کے صاحبزادے خرم روحیل اپنے کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف وحید گل ایم پی اے اور ملک وحید ایم پی اے اپنے کارکنوں کے ہمراہ رونق لگائے ہوئے تھے۔ قلعہ لچھمن سنگھ پر این اے 125 والوں کا استقبالیہ کیمپ ممبران پنجاب اسمبلی یٰسین سوہل و میاں نصیر احمد سمیت ڈپٹی میئر لاہور رانا اعجاز حفیظ سنبھالے ہوئے تھے اور سامنے کارکنوں کا جم غفیر تھا۔ آزادی چوک پر این اے 130 کے کارکن آزادی چوک کے فلائی اوور اور نیچے سڑکوں پر پھیلے ہوئے تھے جبکہ سٹیج پر این اے 130 کے رکن قومی اسمبلی سہیل شوکت بٹ اور رکن پنجاب اسمبلی رانا تجمل حسین خود نعرے لگوا رہے تھے۔ ڈپٹی میئر مشتاق مغل اور ایم پی اے غلام حبیب اعوان کارکنوں کو جوش دلا رہے تھے۔ ٹیکسالی چوک پر این اے 122 اور این اے 129 کے استقبالیہ کیمپ پر رانا مبشر اقبال، ڈپٹی میئر میاں محمد طارق سمیت سردار ایاز صادق کے صاحبزادے ڈاکٹر علی سردار اپنے پرجوش ساتھیوں کے ہمراہ نواز شریف کے نعرے لگا رہے تھے۔ اُن سے تھوڑے فاصلے پر پیر مکی کے بالمقابل این اے 126 سے خواجہ احمد حسان اور سید توصیف شاہ اور این اے 128 سے ملک افضل کھوکھر، سیف الملوک کھوکھر کے ہمراہ ڈپٹی میئر سواتی خان کارکنوں کا لہو گرما رہے تھے۔ استقبالیہ کیمپ کے قرب و جوار میں ہر طرف کارکن پھیلے ہوئے تھے اور میلے کا سماں تھا۔ آخری استقبالیہ پوائنٹ داتا دربار پر لگایا گیا ہے یہاں صوبائی وزیر بلال یٰسین اور رکن پنجاب اسمبلی ماجد ظہور موجود تھے۔ اُن کے ہمراہ ڈپٹی میئر وسیم قادر اور امجد نذیر بٹ اپنے کارکنوں کو آنے والے کل کیلئے استقبال کے حوالے سے ہدایات دے رہے تھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف استقبال کرنے والوں سے خطاب کریں گے۔ یہ حلقہ این اے 120 کا مرکزی مقام ہے۔ اس حلقے کو نواز شریف کا گڑھ اس لئے کہا جاتا ہے کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے 2013ء کے الیکشن تک میاں نواز شریف نے جب جب الیکشن میں حصہ لیا بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اُن کی جلاوطنی کے دور میں اُن کے نامزد نمائندے یہاں سے کامیاب ہوتے رہے۔ نواز شریف کی لاہور آمد سے دو روز پہلے کے جن مناظر کا ہم نے ذکر کیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نواز شریف جب لاہور میں داخل ہوں گے تو شاہدرہ سے داتا دربار تک انسانوں کا ایسا سمندر ہو گا جس کا ریکارڈ شاید آنے والے بیسیوں سال میں نہ توڑا جا سکے۔
گوجرانوالہ سے لاہور سفر کے دوران فیصل آباد ڈویژن کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کالا شاہ کاکو کے مقام پر اُن کا استقبال کریں گے اور ان میں سے بہت سے کاروان جمہوریت میں شامل ہو کر لاہور تک کا سفر کریں گے جبکہ ننکانہ اور شیخوپورہ کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی شاہدرہ چوک اور قصور کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی راوی پل کراس کر کے لاہور کے حلقہ این اے 121 اور این اے 123 والوں کے ہمراہ نواز شریف کا استقبال کرینگے۔ جمعہ کو سابق وزیراعظم جہلم سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے تو کارکنوں کی بہت بڑی تعداد اُن کے ہمراہ تھی۔ بلاشبہ اس تعداد کو ہزاروں میں کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ جہلم سے نواز شریف کی روانگی کے وقت آتشبازی کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ کارکنوں نے اُن کی آمد کے موقع پر جس طرح ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے خوش آمدید کہا تھا ویسے ہی اُن کی روانگی کے موقع پر بھی کارکن جوش و خروش کے ساتھ اُن کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ جہلم سے کھاریاں، لالہ موسیٰ، گجرات تک خلق خدا نواز شریف کے استقبال کے لئے امڈ پڑی تھی۔
گجرات میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا اللہ دیکھ رہا ہے کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں عوام کی عدالت میںحاضر ہوں۔انہوں نے کہا‘آپ نے مجھے 2013ء میں ووٹ دیے۔ تب لوڈ شیڈنگ کا یہ حال تھا چولہا جلتا تھا نہ پنکھا چلتا تھا، اب کاروبار بھی چلتا ہے اور کارخانے بھی چلتے ہیں۔ تب اندھیرے تھے اب روشنیاں ہیں۔ نواز شریف نے کہا عوام سوال کریں مجھے کیوں نکالا گیا۔ جب جج کہتے ہیں میں نے کرپشن نہیں کی تو پھر مجھے کیوں نکالا گیا۔ میں نے قومی خزانے کو امانت سمجھا۔ انہوں نے کہا آپ نے مجھے منتخب کیا پھر آپ کے ووٹ کی پرچی کیوں پھاڑ کر پھینکی گئی۔ آپ کا ووٹ پیروں تلے کیوں روندا گیا۔ انہوں نے کہا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام نہیں چلے گا۔ ظلم برداشت نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا میرے ساتھ ایسا تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ انہوں نے سوال کیا مجھے بتائیں مجھے گھر بیٹھ جانا چاہیے یا باہر آنا چاہیے۔ انہوں نے عوام سے وعدہ کیا جب میں بلائوں گا تو میرے ساتھ دو گے۔ انہوں نے کہا عوام کے ووٹ کی تذلیل گوارا نہیں۔