بھارت اور چین میں جنگ ہوئی تو پاکستان کھل کر انڈیا کیخلاف لڑے گا: بھارتی مبصرین
نئی دہلی(آن لائن)چین اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے پیش نظر نئی دہلی’’پاک چین دوستی‘‘ سے خوفزدہ ہو گیا۔بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اب بھارت اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو پاکستان کھل کر بھارت کے خلاف لڑے گا اور وہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے کرے گا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں بھارت کے فوجی سربراہ جنرل بیپن راوت نے کہا تھا کہ انڈین فوج ڈھائی محاذوں پر جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے۔ بیپن راوت کے اس بیان پر انڈیا سمیت ہمسایہ ممالک چین اور پاکستان کی میڈیا میں بھی کافی توجہ دی گئی تھی۔چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا تھا کہ بیپن راوت نے چین، پاکستان اور انڈیا میں فعال باغی گروہوں سے جنگ جیتنے کی بات کہی تھی۔ پاکستانی میڈیا میں بھی بیپن راوت کا یہ بیان شہ سرخیوں میں آیا تھا۔چین اور انڈیا کے درمیان گذشتہ دو ماہ سے ڈوکلام سرحد پر کشیدگی ہے۔ چینی میڈیا میں جنگ کی دھمکیاں مسلسل جاری ہیں۔ چین یہ بھی کہہ چکا ہے کہ انڈیا اپنے فوجیوں کو واپس بلا لے جبکہ انڈیا کا کہنا ہے کہ چین وہاں سڑک کی تعمیر کا کام بند کرے۔چینی میڈیا میں ہندوستان کو 1962 کی جنگ کی یاد دلائی جا رہی ہے جس میں انڈیا کو بری طرح سے شکست ہوئی تھی۔ اگر اب انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی جنگ میں تبدیل ہوتی ہے تو پاکستان کا رخ کیا ہو گا؟آزادی کے بعد انڈیا کی تمام جنگوں کے گواہ سینئر صحافی کلدیپ نیر کہتے کہ میں اس وقت لال بہادر شاستری (جو نہرو کے بعد انڈیا کے وزیر اعظم بنے) کے ساتھ کام کرتا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر چین کے ساتھ 1962 کی جنگ میں پاکستان ہمارے ساتھ آ جاتا تو ہم جنگ جیت جاتے۔ بھارت نے پاکستان سے مدد نہیں مانگی تھی لیکن مدد کی توقع ضرور رکھتے تھے۔انہوں نے مزید بتایا کہ لال بہادر جی نے ان سے کہا تھا کہ اس صورت حال میں میں نے ایوب خان سے پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ انڈیا کی مدد کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس سے پہلے میں نے جناح سے پوچھا تھا کہ اگر انڈیا پر کوئی تیسری طاقت حملہ کرتی ہے تو پاکستان کا رخ کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم انڈیا کے ساتھ ہوں گے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز میں پروفیسر سویتا پانڈے کہتی ہیں اس وقت پاکستان پر محمد ایوب خان کی حکومت تھی۔ امریکہ نے پاکستان پر کافی دباؤ ڈالا تھا کہ وہ انڈیا چین کے فرنٹ پر کچھ نہ کرے۔ کیا اتنے سال بعد بھی انڈیا اور چین کی کشیدگی میں پاکستان پر امریکہ کا دباؤ کام کرے گا؟کلدیپ نیر نے کہا کہ اس وقت بھی پاکستان میں یہی احساس تھا کہ چلو انڈیا کو چین اچھی طرح سے شکست دے رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں فرائیڈے ٹائمز کے مالک بی آر شیٹی انڈیا کی کھل کر حمایت کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں انڈیا اور پاکستان دوستی کے بغیر نہیں رہ سکتے۔نیر نے کہا کہ اب انڈیا اور چین کے درمیان جنگ کی صورت بنتی ہے تو پاکستان کھل کر انڈیا کے خلاف ہو گا۔ پاکستان دوسرا مورچہ کھول کر سامنے آئے اس پر تو مجھے شبہ ہے، لیکن وہ چین کی مدد کرے گا۔ انڈیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ چین کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو پاکستان اس کی طرف نہیں ہو گا۔ ہو سکتا ہے امریکہ پاکستان پر اتنا دباؤ برقرار رکھے کہ وہ غیر جانبدار رہے۔جبکہ سویتا پانڈے کہتی ہیں کہ '55 سال میں بہت کچھ بدل چکا۔ پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ پوری دنیا کی سیاست بدل گئی ہے۔ پوری دنیا اس بات کو سمجھتی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی انڈیا کے تعلق سے ہی ہے۔ پاکستان کے رشتے تین محاذوں پر خراب ہیں۔ وہ انڈیا کے علاوہ ایران اور افغانستان سے بھی دوچار ہے۔ 'اب پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان اور چین کے رشتے بھی کافی گہرے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اس وقت امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات مبینہ طور پر خراب ہیں۔ ایسے میں کیا 1962 کی طرح 2017 میں بھی پاکستان پر امریکہ کا دباؤ کام کرے گا؟سویتا پانڈے کہتی ہیں یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان امریکہ کے دباؤ میں آ کر کچھ نہیں کرے گا۔ اب پاکستان براہ راست جنگ کے بجائے پراکسی وار کو ترجیح دیتا ہے۔ تو کیا 1962 کی جنگ سے ہی پاکستان کو تحریک ملی تھی کہ وہ انڈیا کو ہرا سکتا ہے؟اس کے جواب میں پروفیسر پانڈے کہتی ہیں کہ اس دلیل میں دم ہے اور پاکستان نے ایسا سوچا تھا۔ 1962 میں پاکستان اور چین کے تعلقات ویسے نہیں تھے جیسے آج ہیں۔ 1962 کی لڑائی کے بعد ہی پاکستان اور چین کے تعلقات مضبوط ہوئے۔ جے این یو کے جنوبی ایشیائی سٹڈیز کے پروفیسر پی لاما کہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک اور قراقرم ہائی وے کا جو تعلق ہے اس کا انڈیا مخالف ہے۔ انڈیا کی مخالفت اس لیے ہے کہ چین نے بغیر انڈیا کی اجازت کے کے او پی سے راستہ بنا لیا تھا۔ چین اور پاکستان کی دوستی کو انڈیا سمجھتا ہے ۔