مودی اپنی اس بات کی ہی پاسداری کریں کہ مسئلہ کشمیر گالی اور گولی سے نہیں‘ گلے لگانے سے حل ہوگا
بھارتی یوم جمہوریہ کشمیریوں کیلئے یوم سیاہ۔ مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال اور دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے
پاکستان سمیت لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے گزشتہ روز بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ اس موقع پر پوری مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال رہی جبکہ بھارتی تسلط کیخلاف دنیا بھر میں کشمیری عوام کی طرف سے احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ مقبوضہ وادی میں احتجاجی مظاہرے روکنے کیلئے سرینگر‘ بڈگام‘ پلوامہ‘ شوپیاں اور کولگام میں بھارتی ایماء پر کٹھ پتلی حکومت نے کرفیو جیسی پابندیاں اور بندشیں عائد کیں اور تمام تعلیمی ادارے بھی بند رکھے گئے جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کردی گئی‘ اسکے باوجود مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام نے دکانیں‘ کاروباری ادارے اور تجارتی مراکز بند کرکے ہڑتال کو مکمل طور پر کامیاب بنایا۔ ہڑتال کی اپیل کشمیری لیڈران سید علی گیلانی‘ میرواعظ عمرفاروق اور یٰسین ملک کی جانب سے کی گئی تھی جس پر کشمیری عوام نے جوش و جذبے کیساتھ لبیک کہا اور مقبوضہ وادی ہی نہیں‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘ ناروے اور برسلز سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں یوم سیاہ منایا۔ یہ دن منانے کا مقصد عالمی برادری کو یہ پیغام دینا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت ریاستی طاقت کے بل بوتے پر سلب کر رکھا ہے‘ اس سلسلہ میں کشمیری عوام نے بھارتی سفارتخانوں اور قونصل خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کئے اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے کشمیر میں بھارتی مظالم پر اپنی مجرمانہ خاموشی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ بھارت کے اندر بھی کشمیری عوام نے بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کئے جن کے دوران پاکستان کے پرچم لہرائے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ اسی طرح آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں بھی کشمیریوں نے مختلف عمارتوں پر سیاہ جھنڈے لہرائے اور احتجاجی ریلیاں نکالتے ہوئے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ مظفرآباد کے سنٹرل پریس کلب میں کشمیری عوام کی جانب سے ایک بڑے مظاہرے کا اہتمام بھی کیا گیا۔
دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ پاکستان نفیس زکریا نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹر پیغام میں بے گناہ کشمیریوں کو بے رحمی سے شہید کرنے کی سخت مذمت کی اور دنیا کو باور کرایا کہ بھارت انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کررہا ہے‘ کشمیری عوام درحقیقت بھارت کے یوم جمہوریہ کو اس وقت سے ہی یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں جب بھارت نے اپنی فوجوں کے ذریعے وادی کشمیر کے ایک بڑے حصے پر اپنا تسلط جمایا تھا۔ یوم سیاہ منانے کا مقصد دنیا کے سامنے کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کے بھارتی دعوئوں کو باطل قرار دلانا ہے جس میں کشمیری عوام اپنی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت کامران و سرخرو ہو رہے ہیں۔ یہ کشمیری عوام کا عالمی برادری پر پڑنے والا دبائو ہی ہے کہ آج ہندو انتہاء پسند وزیراعظم نریندر مودی بھی چاہے کشمیریوں کی اشک شوئی کیلئے ہی سہی مگر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر گالی اور گولی سے نہیں بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل ہوگا۔ گزشتہ روز بھارتی سکھ بھی دنیا کے مختلف ممالک میں ہونیوالے کشمیریوں کے مظاہروں میں شریک ہوئے اور حق خودارادیت کیلئے انکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جبکہ اسکے برعکس مودی چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سفید جھوٹ بولتے رہے کہ مبینہ طور پر پاکستان پر سرجیکل سٹرائیکس کے بعد عالمی برادری نے ہماری طاقت تسلیم کرلی ہے۔
مقبوضہ وادی میں بزرگوں‘ بچوں اور خواتین سمیت کشمیری عوام کو بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز کے ذریعے جس بے دردی کے ساتھ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ وہ آزادی کی تحریکوں کو دبانے کی دنیا بھر میں منفرد مثال ہے۔ نہتے اور بے گناہ کشمیری عوام پر ایسے ظلم و تشدد کا اقوام عالم کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری بھی سخت نوٹس لے چکی ہے جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبریں تک دریافت کی گئی ہیں جن میں بھارتی ظلم و تشدد سے شہید ہونیوالے بیسیوں کشمیری باشندوں کی بے گوروکفن نعشیں دفنا کر انکے لواحقین کو انکے پیاروں کی موت سے بھی بے خبر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت نے نہ صرف کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو بزور دبانے کی کوشش کی بلکہ دنیا کے سامنے ان کا درانداز اور دہشت گرد ہونے کا تاثر پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی مگر بھارتی مظالم کی بنیاد پر آج پوری دنیاکی آنکھیں کھل چکی ہیں اور اقوام عالم کی جانب سے بیک زبان ہو کر اپنے نمائندہ عالمی اداروں کے پلیٹ فارم پر کشمیری عوام کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا اظہار کیا جارہا ہے بلکہ بھارت سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ بات کرنے کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ آج کشمیری ہی نہیں‘ بھارتی عوام بھی بھارت کی جنونی اور انتہاء پسند مودی سرکار کی پاکستان اور مسلم دشمن پالیسیوں اور بھارتی فوجوں کی جانب سے توڑے جانیوالے مظالم پر نفرت کے اظہار کیلئے احتجاج کے مختلف اور منفرد راستے اختیار کررہے ہیں۔ بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر بھارتی علماء کی جانب سے قومی ترانہ پڑھنے سے گریز بھی اسی احتجاج کا ایک راستہ ہے جو سیکولرازم کے داعی بھارتی جنونی لیڈران کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔
ہماری آزادی کی 70 سالہ تاریخ درحقیقت پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی گھنائونی سازشوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل سے بھارت کے مسلسل گریز کی داستانیں بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ قیام پاکستان کے مرحلہ میں آزاد و خودمختار ریاست کشمیر کا تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دے کربھارتی ہندو لیڈران نے خود کشمیر کا تنازعہ پیدا کیا‘ خود ہی اس تنازعہ کو لے کر بھارتی وزیراعظم نہرو اقوام متحدہ میں گئے اور جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور بھارتی حکمرانوں کو وادیٔ کشمیر میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی تو بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہی منحرف ہوگیا جس کے بعد اس نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کا درجہ دے دیا اور پھر اس پر اٹوٹ انگ کی ہٹ دھرمی اختیار کرلی۔
کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی بھارتی چالبازیوں اور سازشوں کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے پاکستان اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے آواز اٹھانے سے روکنے کیلئے 1972ء میں پاکستان کے ساتھ جبر کے حالات میں شملہ معاہدہ کیا جس کے تحت مسئلہ کشمیر سمیت تمام دوطرفہ تنازعات باہمی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا لالی پاپ دیا گیا اور پھر بھارت اس معاہدے کی راہ پر آنے سے بھی مکر گیا چنانچہ یہ تلخ حقیقت بھی ہماری تاریخ کے ریکارڈ میں شامل ہوچکی ہے کہ بھارت نے اب تک ہر سطح کے ڈیڑھ سو سے زائد مذاکرات کی میز خود رعونت کے ساتھ الٹائی ہے اور وہ پاکستان کو کشمیر کو بھول جائو والا پیغام دوطرفہ مذاکرات کے ہر اہتمام کے موقع پر دیتا رہا ہے۔ بھارت کی شروع دن سے نیت بھی یہی ہے کہ کشمیر کا کسی بھی صورت پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا جائے تاکہ اسکے راستہ پاکستان آنیوالے دریائوں کا رخ موڑ کر اور پانی روک کر پاکستان کی زرخیز دھرتی بنجر بنادی جائے اور اس طرح پاکستان کی سلامتی کمزور کرکے اسے اپنے لئے تر نوالہ بنالیا جائے۔
کشمیری عوام نے اس بھارتی بدنیتی کو بھانپ کر ہی اپنے حق خودارادیت کیلئے بھارتی فوجوں کے آگے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا جو اپنے پیاروں کی لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکر بھی اپنے حق خودارادیت کے اصولی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں صبر و استقامت کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ اگر وہ بھارتی مظالم سہہ کر بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے آزادی کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا تو انکے جذبوں کیخلاف آئندہ بھی کوئی بھارتی ہتھکنڈہ کارگر نہیں ہو سکے گا اور وہ آزادی کی تڑپ میں آگے بڑھتے ہوئے اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ پاکستان کے 71ویں یوم آزادی کے موقع پر آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار محمد مسعود خان اور وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خاں نے بھی اسی تناظر میں بھارتی لیڈر شپ اور اقوام عالم کو باور کرایا کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق حتمی ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا چنانچہ یہی زبان خلق کشمیر کی آزادی اور اسکے پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے نقارۂ خدا بنے گی۔ کشمیر نے جلد یا بدیر بھارتی تسلط سے بہرصورت آزاد ہونا ہے جس کیلئے کشمیری عوام نے بھارتی یوم جمہوریہ کو دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منا کر اپنے کاز کے ساتھ وابستگی کا ٹھوس ثبوت فراہم کردیا ہے چنانچہ مودی سرکار کو محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لینا چاہیے اور یہ حقیقت تسلیم کرکے پاکستان اور کشمیری نمائندہ تنظیموں کے ساتھ ٹھوس مذاکرات کی شروعات کردینی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر گالی اور گولی سے نہیں‘ کشمیری عوام کو گلے لگا کر انکا حق خودارادیت تسلیم کرنے سے ہی حل ہوگا۔