میرِ کارواں !
وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ چند روز کے دوران ایک سے زائد مرتبہ مجوزہ لاک ڈائون کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ یہ بات قابل ستائش کہ وزیراعظم نے امریکہ سمیت سبھی موثر عالمی قوتوں سے اپیل کی ہے کہ کرونا جیسی آفت کا سامنے کرنے کیلئے ایران پر لگائی گئی سبھی پابندیوں کو ہٹا لیا جائے تا کہ ایران اس وباء سے بہتر طور پرنمٹ سکے۔
یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا اعلان کیاگیا اور شرح سود کو بھی کم کر دیا گیا ہے، اگرچہ کچھ طبقات کا اصرار ہے کہ اسے مزید گھٹایا جانا چاہیے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں نسبتاً کم وسائل کا حامل ہونے کے باوجود پاکستان اس قدرتی آفت کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے کی سعی کر رہا ہے۔
اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی مختصر مگر جامع الفاظ میں اس عزم کا اظہار کر چکے کہ ان شاء اللہ پاک افواج ملک و ملت کے تحفظ کی خاطر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گی۔ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی واشگاف الفاظ میں ایک سے زائد مرتبہ اس عزم کا اعادہ کیا ہے ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار مگر سنجیدہ حلقوں نے کہا ہے کہ اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں کہ کرونا وائرس ایک عالمی خطرے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور دنیا بھر میں اس عالمی وبا نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے معاشی، سیاسی اور سفارتی محاذ پر عجب ہراس کا عالم طاری ہے۔ دنیا کی تمام ہوائی کمپنیاں بند ہو چکی ہیں مگر قابل اطمینان امر یہ ہے کہ پاکستان میں اس مرض کے پھیلائو کو روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ہر شعبہ اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے اور توقع رکھی جانی چاہیے کہ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سبھی طبقات تدبر ، تحمل اور میانہ روی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اللہ قوموں اور افراد کو مختلف انداز سے آزماتا رہتا ہے، وہ صحت بھی عطا کرتا ہے اور مرض میں بھی مبتلا کرتا ہے، مالداری سے بھی نوازتا ہے اور محتاجی سے بھی، طاقتور بھی بناتا ہے اور کمزور بھی، کبھی خشک سالی کے ذریعے کبھی قحط کی شکل میں اور کبھی موسموں کی شدت سے۔ اس وقت موجودہ آزمائش کرونا وائرس ہے، پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے، سادہ آنکھ سے نظر نہ آنے والے اس معمولی سے وائرس نے پوری دنیا کو مجبور و محبوس کر دیا ہے۔
اس موذی وائرس سے چھٹکارے کیلئے مختلف نوع کی تدابیر کی جا رہی ہیں، لوگوں کو اجتماعات سے روکا جا رہا ہے اور لاک ڈائون جاری ہے۔ ایسے میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غریب مزدور جو روزانہ کے حساب سے کھاتے کماتے تھے‘ ان کی بے روزگاری کا خیال کریں۔ اپنی سطح پر کوشش کی جائے کہ آس پاس غریب کے بچے بھوکے نہ سوئیں، انسان کے اپنے بس میں جو کچھ ہے وہ کر رہا ہے۔
ہمارے اوپر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور بیدار رہا جائے، غیر سنجیدہ طرز عمل سے بچا جائے اور ہر قسم کی سستی سے مکمل طور پر گریز برتا جائے، اپنے آس پڑوس میں مستحق افراد کی کفالت کی کوشش کی جائے۔ ڈاکٹر یوں تو اس مرض سے لڑائی میں مثالی کردار ادا کر رہے ہیں مگر وہ اپنی خدمات کے معاوضہ میں تخفیف کی راہ اپنائیں تا کہ مریضوں کی دلجوئی ممکن ہو سکے۔ دکاندار اشیائے ضروریہ کے دام بڑھانے سے اجتناب کریں اور کسی کی مجبوری کا فائدہ بالکل نہ اٹھایا جائے۔
سبھی جاتنے ہیں کہ قوموں پر مشکل وقت آتا رہتا ہے اور وہی قومیں مشکل حالات اور بیماریوں سے نبردآزما اور جانبر ہوسکتی ہیں جو علم و معرفت کا راستہ اختیار کرتی ہیں مگر آج کے مادی دور میں انسان اپنے ہی گورکھ دھندوں میں پھنستا اور دھنستا جارہا ہے۔ مشکلات میں جہاں انسان احتیاطی تدابیر کرتے ہوئے دربدر کی ٹھوکریں کھا کر اپنے آپکو بچانے کیلئے کوشاں رہتا ہے وہاں وہ بالعموم ایسا دروازہ کھٹکھٹانا بھول جاتا ہے جو کبھی بند ہی نہیں ہوتا اور وہ دروازہ ہے اللہ تعالی پر توکل اور اس پر بھروسے کا دروازہ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالی پر توکل کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ظاہری اسباب کو پس پشت ڈال دیا جائے بلکہ بہتر تو یہ ہو گا کہ اس مرحلے پر ہندوستانی منفی عزائم کی جانب سے بھی چوکنا رہا جائے۔
٭…٭…٭