ہمیں حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ خود بھی ایکدوسرے کی نگہداشت کرنا ہوگی
کرونا وائرس سے انسانی تباہ کاریاں روکنے میں پوری دنیا کی بے بسی اور مزید بحرانوں کے خدشات
ملک بھر میں کرونا وائرس کے 60 مزید کیسز سامنے آنے کے بعد پاکستان میں اس وباء سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 16 سو سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفرمرزا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ احتیاطی اقدامات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔ اس وقت پنجاب میں 593‘ سندھ میں 502‘ خیبر پی کے میں 192‘ بلوچستان میں 141‘ گلگت بلتستان میں 123‘ اسلام آباد میں 43 اور آزاد کشمیر میں سات کرونا متاثرین موجود ہیں۔ گزشتہ روز پانچ مزید ہلاکتوں سے ملک میں کرونا وائرس سے جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد 17 ہو گئی ہے جبکہ راولپنڈی کے ایک گھر کے گیارہ افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ کراچی کے گیارہ مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز یوتھ رضا کار پروگرام کا افتتاح کیا اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ ذخیرہ اندوزوں کیخلاف سخت ایکشن لیں۔ دوسری جانب صوبائی حکومت نے خوراک کی قلت پر قابو پانے کیلئے ہائی ویز سمیت تمام شاہراہیں کھولنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے تاہم ملک بھر کے تمام موٹرویز عام ٹریفک کیلئے بند رہیں گے جبکہ مسافر ٹرینیں بھی بند رکھی جائیں گی۔
یہ امر واقع ہے کہ کرونا وائرس نے دنیا بھر میں ہیجان کی کیفیت پیدا کردی ہے اور احتیاطی اقدامات کے باوجود اس وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ اس وقت بالخصوص پورا یورپ اور مغربی دنیا اس جان لیوا وائرس کی زد میں ہے اور عملاً بے بس ہوچکی ہے۔ گزشتہ روز سپین میں 838 اور برطانیہ میں 209 ہلاکتیں ہوئیں۔ اسی طرح ایران میں گزشتہ روز مزید 123 افراد جاں بحق ہوئے۔ کرونا وائرس سے اب تک مجموعی 32190 انسانی ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں 17 ہزار باشندے صرف اٹلی اور سپین میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ امریکہ دو ہزار ہلاکتوں اور ایک لاکھ 24 ہزار 109 مریضوں کے ساتھ کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست آچکا ہے جو اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ کرونا وائرس کے سدباب کیلئے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر بھی کارگر نہیں ہورہی۔ اس انسانی المیہ نے جہاں فرانس کے ایک سابق وزیر کی جان لی ہے‘ وہیں جرمنی کے ایک صوبائی وزیر خزانہ تھامس شیفر نے اپنے ملک میں کرونا وائرس سے پیدا ہونیوالے سخت مالی بحران سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی ہے۔ یہ انتہائی اقدام امریکہ کا ایک ارب پتی شخص بھی اٹھا چکا ہے جس نے کرونا وائرس سے اپنے پورے خاندان کی ہلاکت کے بعد گزشتہ روز اپنے گھر کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگا خودکشی کی۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ حالات ٹھیک ہونے میں چھ ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔ انکے بقول برطانیہ میں کرونا وائرس سے ہونیوالی اموات 20 ہزار کی تعداد تک کنٹرول ہو گئیںتو یہ کرونا وائرس کیخلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
ہمارے ملک میں کرونا وائرس کا پھیلائو مغرب و یورپ جیسا نہیں ہے تاہم ہمیں اس وائرس کے تدارک کیلئے طبی سہولتوں کی سخت کمی کا سامنا ہے۔ اگرچہ برادر ملک چین کی جانب سے ہمیں وینٹی لیٹرز‘ ماسکس اور حفاظتی لباس کی صورت میں حوصلہ افزاء کمک مل رہی ہے اور گزشتہ روز پاک فضائیہ کا طیارہ مزید امدادی سامان لے کر پاکستان پہنچ گیا ہے جو چین کی پاکستان کے ساتھ بے لوث دوستی کا بین ثبوت ہے تاہم کرونا وائرس کے زیادہ پھیلائو کی صورت میں ہمارے دستیاب وسائل اس وباء سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہونگے کیونکہ ہمارے ہسپتالوں میں اس وقت بھی ڈاکٹروں کے حفاظتی لباس‘ سازوسامان اور ادویات تک کی عدم دستیابی ہے۔ اس صورتحال میں سوائے مکمل لاک ڈائون اور گھروں میں بیٹھ کر احتیاطی تدابیر کرنے کے اور کوئی حکمت عملی مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی جبکہ اس حکمت عملی کے اپنے الگ مسائل ہیں جن سے خوراک و ادویات کی قلت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا عفریت بھی ملک کے غریب اور متوسط طبقات کیلئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اسی خدشہ کی بنیاد پر مکمل لاک ڈائون کی پالیسی اختیار کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں تاہم کرونا وائرس کا پھیلائو بڑھے گا تو مکمل لاک ڈائون بشمول کرفیو کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہے گا۔ اس ممکنہ صورتحال سے عہدہ برأ ہونے کیلئے وزیراعظم کے احکامات کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں مستحقین کے گھروں تک اشیائے خوردونوش اور ادویات پہنچانے کے متعدد اقدامات اٹھا رہی ہیں اور وزیراعظم نے اس مقصد کیلئے ٹائیگر فورس تشکیل دیکر یوتھ رضا کار پروگرام کا بھی اجراء کیا ہے جبکہ مستحقین تک سامان خوردونوش پہنچانے کیلئے ہی ہائی ویز کھولنے اور اضافی مال گاڑیاں چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسکے باوجود آنیوالی کٹھن صورتحال بشمول خوراک و ادویات کی قلت سے عہدہ برأ ہونے کیلئے اجتماعی کاوشوں اور ملک کے متمول طبقات کی جانب سے صلہ رحمی کے جذبہ کو بروئے کار لا کر اپنے پاس پڑوس‘ گلی محلے اور شہر بھر میں ایسا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی فرد کسی گھر میں بھوکا نہ سوئے اور ادویات نہ ہونے کے باعث کسی کی ہلاکت نہ ہو۔ آج پوری دنیا آزمائش میں ہے اور اس آزمائش پر پورا اترنے کے جتن میں ہے تو ہمیں بھی حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ اپنی مدد آپ کے جذبے کو فروغ دیکر اس آزمائش میں سرخرو ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کیلئے آج تو قومی ایثار و یکجہتی کی زیادہ ضرورت ہے جو ہمارے قومی سیاسی و دینی قائدین سے عملیت پسندی کی متقاضی ہے۔