منگل ‘ 6 ؍ شعبان 1441ھ‘ 31؍ مارچ 2020ء
لاہور پر گداگروں ، چوروں اور ڈکیتوں کی یلغار
دنیا پر اس ناس پیٹے کرونا کا اثر ہوا ہے۔ اگر نہیں ہوا تو صرف ان گداگروں اور چوروں ، ڈکیتوں پر اس کا اثر نہیں ہو رہا۔ یہ مخلوق اس وبا کے دوران بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہی۔ کسی مصروف چوک پر جہاں ہر طرف سناٹا چھایا ہو، ایک منٹ کے لئے جیسے ہی اشارہ بند ہوتا ہے سگنل پر لگی سرخ بتی جلتی ہے۔ یہ لوگ اسے حملے کا اشارہ تصور کرتے ہوئے ، غول بیابانی کی طرح نجانے کہاں کہاں سے نکل کر گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ گاڑی والے تو شیشے اوپر کر کے ان کی دست برد سے بچنے کی راہ نکال لیتے ہیں مگر موٹر سائیکل سوار بے چارے ان کے قابو میں آ جاتے ہیں کوئی بازو کھینچ رہا ہوتا ہے تو کوئی قمیض کوئی پینٹ یا شلوار پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس میں طرح طرح کے مرد عورت بچے اور بوڑھے ہوتے ہیں۔ ان میں نجانے کتنے مریض ہوں گے۔ ان سے بچائو کی کوئی راہ اب انتظامیہ ہی نکالے تو نکالے ورنہ بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس کے ساتھ خدا غارت کرے ان ڈاکوئوں اور چوروں کو بھی جو اس لاک ڈائون میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان کے کمائی کے راستے بند نہیں ہو سکے۔ چوروں نے لاہور کی گرین بیلٹ کے کنارے لگے جنگلوں کو تو چھوڑیں قبرستان کے اردگرد لگے جنگلے بھی اکھاڑ لیے ہیں اس کام میں زیادہ تر نشئی بھی شامل ہیں۔ مگر یہ جو شہر میں گزشتہ رات درجن بھر سے زیادہ ڈکیتی کی وارداتیں ہوئی ہیں اس کا تدارک کون کرے گا۔ ان لوگوں کو تو مرنا یاد ہی نہیںرہا۔ کرونا کا خوف بھی ان کو باز آنے پرمجبور نہیں کر سکا۔ حیرت کی بات ہے اتنی پابندیوں کے باوجود کس طرح یہ وارداتیں کر رہے ہیں کیا انہیں کوئی روکنے والا نہیں ۔
٭٭٭٭٭
شمالی کوریا نے مزید 2 بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ کر لیا
لیجئے ایک طرف دنیا بھر میں کرونا کا شکار ہو کر دھڑا دھڑ مرنے والوں سے قبرستان ، شمشان گھاٹ بھر رہے ہیں۔ لوگ تمام تر حفاظتی اقدامات اور طبی سہولتوں کے باوجود اس ان دیکھے دشمن کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ یہ تو قدرتی سزا ہے جو دنیا بھر کے باسیوں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے مل رہی ہے۔ اب اس ہلاکت خیز دور میں دنیا بھر کے ماہرین سائنسدان اور انسان دوست ادارے اس وبا کے علاج کی ویکسین بناکر انسانوں کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مگر دوسری طرف ایسے سنگدل لوگ بھی ہیں جو موت کے اس کھیل میں اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ ڈال کر زمین کو انسانوں سے پاک کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان میں شمالی کوریا سرفہرست ہے جوہلاکت خیز ہتھیاروں کی تیاری سے باز نہیں آ رہا۔ حالانکہ اس وقت آدمی کی خانہ ویرانی کے لئے کرونا ہی کافی ہے۔ مگر اس دور میں بھی شمالی کوریا والوں نے مزید دو ہلاکت خیز بیلسٹک میزائلوں کے تجربے کر کے نجانے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر جنگ کی بجائے انسانیت کی بقا کی مہم چل رہی ہے۔ مگر شمالی کوریا والے ابھی بھی تباہی و بربادی کا سامان تیار کر رہے ہیں جس کی دنیا بھر میں مذمت ہو رہی ہے۔
٭٭٭٭
لاک ڈائون پر عمل نہ کیا تو کرفیو لگائیں گے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر
شہباز شریف صاحب کو بھی بہت شوق ہے کرفیو لگانے کا تو فاروق حیدر کی راہ میں کون حائل ہو سکتا ہے۔ اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو مکمل آزادی سے کرونا کیخلاف جنگ میں آزادانہ فیصلے کر رہی ہے۔ اپوزیشن پر جارحانہ تنقید کرنے والے وزیر فواد چودھری بھی ان کے اچھے اقدامات کی تعریف کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اس وقت مسلم لیگ برسراقتدار ہے۔ اگر شہباز شریف کا خیال ہے کہ مکمل لاک ڈائون یعنی (کرفیو) لگایا جائے تو اس کی شروعات وہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے کرنے کا حکم دیں۔ دونوں صوبے اس پر بنا کسی چوں چرا کے عمل کر سکتے ہیں۔ اس طرح کم از کم ان کے احکامات پر لگے کرفیو کے ثمرات جب سامنے آئیں تو پھر وہ کہہ سکتے ہیں کہ پورے پاکستان میں ایسا کیا جائے۔ لوگ بھی تسلیم کریں گے اور حکومت بھی ماننے پر مجبور ہو گی۔ اس وقت جزوی لاک ڈائون نے یہ حالت کر دی ہے۔ غریبوں کے لئے دو وقت روٹی کا حصول مشکل ہو رہا ہے۔ کراچی کے غریب علاقوں میں لوگ مشتعل ہو کر احتجاج کر رہے ہیں۔ اگر مکمل کرفیو والی حالت نافذ ہو گئی تو کرونا کی نسبت بھوک افلاس اور بیماریوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔ اس وقت مسئلہ سماجی رابطوں میں کمی ، غربت بے روزگاری اور کام کی بندش بھوک و فلاس کا شکار لوگوں کی مدد کرنا اور انہیں ماہانہ بنیاد پر راشن اور مالی امداد مہیا کرنا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما اس پر توجہ مبذول رکھیں تو کرفیو سے زیادہ مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
پنجاب میں لاک ڈائون کے باوجود ایک روز میں 545 ٹریفک حادثات۔ 7 افراد ہلاک 614 زخمی
اب ایسی خبر کے بعد کسی کو یقین آئے گا کہ پنجاب میں ٹریفک بند ہے ہائی ویز اور موٹرویز پر پبلک ٹرانسپورٹ اور نجی گاڑیوں کی آمدورفت بند ہے۔ یہ اعداد شمار تو چیخ چیخ کر کوئی اورکہانی سنا رہے ہیں۔ ان میں وہ حادثات شامل نہیں جو درج یا رپورٹ نہ ہو سکے۔ اگر ان اعداد و شمار کو ہی نوٹ کیا جائے تو عام دنوں میں کیا کچھ ہوتا ہو گا جب ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے۔ لاکھوں گاڑیاں ریس لگاتی نظر آتی ہیں۔ موٹر سائیکل سوار موت کے کنواں کی طرح سڑکوں پر کرتب دکھاتے نظر آتے ہیں۔ خدا ان کو ہدایت دے۔ اب ان لوگوں کو کیا کہیں جو بندش لاک ڈائون کے باوجو سڑکوں پر اڑتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ کرونا سے پہلے ان لوگوں کا علاج ضروری ہے جو بلاوجہ سڑکیں ناپتے نظر آتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد تو چلیں مجبوری سے باہر آتے ہیں۔ مگر یہ جو خالی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں ان کی وجہ سے اور حکومتی پابندی کے باوجود بلاوجہ سڑکوں پر گاڑیاں لے کر آنے والوں کی وجہ سے حادثات کی شرح یہ خوفناک منظر پیش کر رہی ہے اتنا تو ایک روز میں کرونا سے لوگ نہیں مرے جتنا ٹریفک حادثات میں مر رہے ہیں۔ اس کا سدباب ضروری ہے۔ ورنہ۔ بقول غالب تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ
گر ’’یہی ہوتا ‘‘رہا غالب تو اے اِہل جہاں
دیکھناان بستیوں کوتم کے ویراں ہو گئیں