پنجاب اور اسکے قابل ذکر مدارالمہام
یہ قیدی ہر وقت نامساعد حالات کا رونا روتے رہتے۔ انہیں رنگین ماحول سے نکال کر سنگین سلاخوں پر بنی ہوئی قلعہ نما عمارت میں بند کر دیا گیا تھا۔ کہاں پائل کی مدھر جھنکار ، کہاں حوالدار پیندے خان کے کرخت ڈکار! کہاں گھنگھروں کی چھن، چھن ، کہاں مدقوق کھانسی کی ٹھن ٹھن ، کہاں بازار حسن کے لذیذ سری پائے اور روغنی نان، کہاں جیل کی ان گلی دال اور ادھ جلی روٹیوں کا دان! یہ انہوں نے چند دنوں میں ہی ہتھیار پھینک دئیے۔ ایک دلال رو رو کر کہنے لگا صاحب، پولیس نے ہم پر بڑا ظلم کیا ہے۔ اصل غنڈوں کو تو پکڑا نہیں، ہم غریبوں کو جہنم رسید کر دیا ہے۔ صاحب! آپ ہی انصاف فرمائیں! ہم کیسے غنڈہ گردی کر سکتے ہیں۔ ہم تو بزنس مین ہیں۔ کونسا بزنس مین چاہے گا کہ اس کا کاروبار تباہ ہو…موسیٰ خان نے بڑے فخر سے صدر ایوب کو بتایا کہ صوبے سے غنڈوں کا صفایا کر دیاگیا ہے۔
ایک طویل عرصے کے بعد جنرل صاحب سے رحیم یار خان میں ملاقات ہوئی۔ میں اس وقت وہاں ڈپٹی کمشنر تھااور موسیٰ خان گورنر بلوچستان تھے۔ اپنے ADC کی شادی پر تشریف لائے تھے۔ ہم نے ایک مصروف دن گزارا۔ چند سوالات جو ایک عرصے سے ذہن میں کلبلا رہے تھے، پوچھ ڈالے۔ عرض کیا، 1965ء میں آپ کمانڈر ۔ ان ۔ چیف تھے۔ کیا آپ نے سوچ سمجھ کر جنگ شروع کی تھی۔ بولے…بالکل نہیں! میں نے تحریری طور پر اس کی مخالفت کی تھی۔ بھٹو اور اور عزیز احمد فارن سیکرٹری نے صدر کو ورغلایا کہ وہ جنگ جیت کر قومی ہیرو بن جائیں گے۔ جنگ کشمیر تک محدود رہے گی اور ہندوستان کبھی بھی انٹرنیشنل بارڈر کراس نہیں کرے گا۔ چین ہماری مددکو آئے گا۔ ایوب خان ان کے جھانسے میں آ گیا۔ INCONCLUSIVE WAR تاشقند معاہدے پر فتح ہوئی جسکو انہی لوگوں نے بعد میں ایکسپلائٹ کیا۔ ماضی کو کردیدتے ہوئے کو بولے‘‘۔ تقسیم کے وقت میں لاہور میں برگیڈ کمانڈر تھا۔ والٹن کیمپ لٹے پٹے لوگوں سے اٹ گیا۔ وہ بوڑھے باپ جنکی کمریں اپنے جوان بیٹوں کے غم میں کمان بن گئی تھیں۔ یتیم اور لاوارث بچے۔ وہ عورتیں جو اپنا سب کچھ لٹا کر بمشکل پہنچیں تھیں۔ قائد لاہور آئے تو انہوں نے کیمپ دیکھنا چاہا۔ ہم نے مقدور بھر کوشش کی کہ وہ نہ جائیں مگر وہ بضد رہے۔ نتیجتاً جب وہ گئے تو بڑا دلخراش منظر تھا۔ لفظ بیان نہیں کر سکتے! غریب ہو جاتے ہیں فاہد کو دیکھتے ہی، A WAILWENT UP THE Siky درد کی شدید لہر ان کے چہرے پر اُبھری۔ وہ غم سے نڈھال ہو کر زمین پر بیٹھ گئے۔ ہم ان کے منہ سے نکلے ہوئے صرف یہ الفاظ سن سکے۔ WASIT WORTH IT? کچھ دیر خاموشی رہی۔ شاید کہنے کے لئے باقی کچھ نہ بچا تھا۔
رخصت ہوتے وقت میں نے آخری سوال کر ڈالا۔ ’’آپ مغربی پاکستان کے بااختیار گورنر رہے۔ اب ایک چھوٹے سے صوبے کے بے اختیار حاکم ہیں آخر قبول کرنے سے پہلے کچھ سوچا تو ہو گا؟ بالکل نہیں۔ وہ ترت بولے SPACIOUS ACCOMODATION-GOOD FOOD, LoT OF COMFORTS,WHAT ELSE AND OLD MAN REQUIRES?
کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ سادگی اور صاف گوئی یکجا ہو گئی ہے۔
بھٹو نے اپنے ڈائیور دوست ملک غلام مصطفیٰ کھر کو پنجاب کا گورنر اور پھر وزیراعلیٰ بنا دیا۔ اس پُر مسرت موقع پر اس بازار میں تو باقاعدہ چراغاں کیا گیا۔ ملک صاحب دبنگ انسان تھے۔ نوجوان تھے اور مردانہ حسن کے رگ پیکر نہیں تو اس کے قریب قریب ضرور تھے۔ زندگی اگر رنگوں سے عبارت ہے تو انکی حیات ہفت رنگ تھی! کسی بھی بڑے زمیندار کی طرح ایک سے زیادہ شادیوں کا شوق پال رکھا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جب بھی انہوں نے شادی کا پیغام بھیجا تو دوسری طرف سے کبھی انکار نہ ہوا۔ شروع میں تو یہ باس کی توقعات پر پورا اترے۔ پولیس کی ہمہ گیر ہڑتال کو ناکام بنایا۔ جنرل گل حسن اور ائیرمارشل رحیم کا استعفیٰ بھی انکی حکمت عملی سے ممکن ہوا۔ جب کھاریاں میں صدر بننے پر چوہدری فضل الہٰی کی سیٹ خالی ہوئی تو ضمنی انتخاب کے موقع پر ایجنسیوں نے بھٹو صاحب کو رپورٹ دی کہ مخالف فریق کا پلہ بھاری ہے۔ چودھری ظہور الہٰی کے قدم آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بھٹو نے اپنی تشویش کا اظہار کیا تو انہوں نے اسے اپنی کامیابی کا یقین دلایا۔ اس سلسلے میں جو کابینہ کی میٹنگ ہوئی اس میں قرعہ میرے نام نکلا! مجھے AC کھاریاں بنا دیا گیا شام کوکھر صاحب کا فون آ گیا۔ بولے میں چار وزیر ، ممتاز کاہلوں، انور سماں، چوہدری ارشاد اور مشیر خاص ڈاکٹر غلام حسین بھیج رہا ہوں۔ تمہیں ہر شام ان کی کارکردگی کی رپورٹ دینا ہے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس وقت ملک معراج خالد وزیراعلیٰ تھے۔ انہیں اس قابل نہ سمجھا گیا کہ الیکشن کی باگ ڈور سنبھال سکتے۔ ہر چار وزرا، ان سے اس قدر خائف تھے کہ میری منت سماجت کرتے۔ ’’شاہ جی۔ہتھ ہولا رکھنا‘‘
الیکشن جتنے کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ کھر بھٹو صاحب کے اور قریب آ جاتے مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ اقتدار کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ بالآخر وہی بات ہو گئی جس کا زیرک بھٹو کو اندیشہ تھا۔ پے درپے کامیابیوں نے کھر صاحب کے سبو کو سرمست کر دیا۔ پہلے تو شیر پنجاب کہلاتے تھے اب سمجھنے بھی لگے۔ لہٰذا ضروری ہو گیا کہ شیر کو پنجرے میں بند کر دیا جائے۔ دوست دست درازی پر اُتر آیا تھا۔
کھر کے تلخ تجربے کے بعد بھٹو نے سوچا کہ کسی بے ضرر آدمی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ چنانچہ ایک نستعلیق شخص کا انتخاب کیا گیا۔ حنیف رائے بنیادی طور پر ایک آرٹسٹ تھا۔ پڑھا لکھا شخص تھا۔ بظاہر UNAMBITIOUS بھی لگتا تھا۔ یہ تجربہ بھی زیادہ دیر کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک دن بھٹو نے طنزاً پوچھا۔ ’’سنا ہے تم نے پنجاب میں ایک ہنری کسنجر کو بطور پرنسپل سیکرٹری مقرر کر رکھا ہے؟ ان کا اشارہ شاہد حامد کی طرف تھا۔ جس کا تعلق سول سروس سے تھا۔ اس پر رامے ترت بولا۔ آپ کے پاس بھی تو ایک ہنری کسنجر (رفیع رضا) ہے۔ اس نے بھٹو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جسارت کی۔ بھٹو بڑا کامیاب سیاست دان تھا۔ سمجھ گیا کہ پینٹر اپنے جوتوں سے باہر نکل رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسے واپس کینوس کی طرف دھکیل دیا۔ (جاری)