• news
  • image

وادی چکوال

چکوال کے اوصاف کروں کیسے بیاں
اے دوست مرے پاس وہ الفاظ کہاں
چکوال کے لوگوں میں ہے اک ایسی بات
ہوتی ہے جو ارباب نظر پر ہی عیاں
اس خاکے کے ذرات میں اک روشنی ہے
پیکر ہے شجاعت کا ہراک پیروجواں
تاریخ فراموش نہیں کرسکتی
دھنی کے جوانوں کے دلیری کے نشاں
اس وادی دلکش کے نشیب اور فراز
ہیں اہل نظر کے لیے سرمایہ جاں
پنجاب کا یہ ضلع ہے آپ اپنی مثال
اس طرح کے نظارے بھلا اور کہاں
چکوال‘ تلہ گنگ‘ چوآسیدن شاہ
لگتا ہے کہ ہر قریہ ہے اک طرفہ جہاں
ہے بھون کے تالاب کنارے اب بھی
اک گم شدہ لمحے کا کوئی عکس رواں
چلے پہ چڑھائی تھی کسی گبھرو نے
اک حسن کی دیوی کے لیے اپنی کماں
دیکھے جو کوئی جاکے اگر کلرکہار
وہ دیکھے گا تاریخ کے قدموں کے نشاں
کیا خوب ہے نظارہ رقص طاؤس
کیا بھاتا ہے آنکھوں کو یہ خوش رنگ سماں
ہے کتنی ہی صدیوں کا امیں راج کٹاس
آثار قدیمہ کا پراسرار جہاں
بوچھال کے نزدیک سرراہ کہیں
خوابیدہ ہے انگلینڈ کا دل پھینک جواں
لنگاہ ہے وہ قریہ حسن وخوبی
ہیں جس کے جہاں گرد بھی معروف جہاں
جس خاک کی آغوش میں ہیں شاہ مراد
وہ خاک بنی سرمہ صاحب نظراں
چمکے ہیں یہاں شعروادب کے کئی چاند
ہوتا ہی رہا ہے گزر ماہ وشاں
چکوال کی تاریخ قلم بند ہوئی
جب ڈپٹی کمشنر تھے لیاقت علی خاں
نیازی ہیں میانوالی کے لیکن ان کو
اس وادی دلکش سے ہے اک ربطہ نہاں
وہ مرد قلند ہیں سراپا درویش
اللہ رکھے ان کو ہمیشہ شاداں
(جمیل یوسف)

ڈاک ایڈیٹر

ڈاک ایڈیٹر

epaper

ای پیپر-دی نیشن