قاضی کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ دے کر انہیں سر خرو کر دیا۔ یہ ایک منفرد مقدمہ تھا اس لیئے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا جج اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے اسی عدالت میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا ہوا، دس رکنی بنچ کے اکثریتی ارکان نے انہیں معصوم قرار دیتے ہوئے انکے خلاف بے نامی جائیداد اور آمدن سے زائد اثاثے رکھنے ، حقائق چھپانے، منی ٹریل نہ دینے اور ٹیکس نہ دینے جیسے معاشی جرائم سے مبرا قرار دے دیا جبکہ اسی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نا اہلی کیلئے صدر مملکت کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس سپریم کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی تھی اور صرف ایف بی آر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جائیدادوں اور ٹیکس سے متعلق رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، اسی فیصلے کو قاضی صاحب نے ایک نظر ثانی درخواست کے ذریعے چیلنج کیا ۔ یہی نظر ثانی کی درخواست انکے ساتھی ججوں نے منظور کی اور یوں قاضی صاحب کے خلاف اب تک ہونے والی ہر کاروائی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
اس اکثریتی فیصلے کو مختلف تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔ ایک نظریہ تو یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس چونکہ سربراہ مملکت کی جانب سے دائر ہوا تھا س لیئے یہ عدالتی فیصلہ اصل میں حکومت اور ریاست کی شکست ہے ، پھر دوسری تھیوری یہ بھی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چونکہ فیض آباد دھرنا کیس میں عسکری ادارے کے خلاف فیصلہ دیا تھا اس لئے مزکورہ ادارے کی بھی بلواسطہ طور پر یہ خواہش ہوگی کہ ْاضی صاب کے خلاف کوئی کارروائی ہو کیونکہ فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کچھ معاملات میں عسکری ادارے کو براہ راست ذمہ دار ٹہرایا تھا ، مقتدر حلقے یہ بھی جانتے ہیں کہ دو سال بعدیعنی سن دو ہزار تئیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان بن جائیں گے اور قریبا ایک سال یعنی پچیس اکتوبر سن دو ہزار چوبیس تک اسی منصب پر فائز رہیں گے ۔ اس لیئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ قاضی صاحب کے خلاف آئینی و قانونی کاروائی ہو۔ اور یہ کہ صدر مملکت کا ریفرنس اسی کاروائی کی خواہش کا نکتہ آغاز تھا۔ دیکھا جائے تو ایک جج کے خلاف الزامات ثابت کرنا اور اسے احتساب کی چکی میں پیسنا اس نظریئے کا احیا ء ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی مقدس گائے نہیں ، کسی کو اثتثنیٰ حاصل نہیں ۔ جو جج صاحبان دوسروں کو احتساب کرتے ہیں ، الزامات کی صورت میں ان کی بھی پوچھ ہونی چاہیئے ۔ جیسے حضرت عمر ؓکے دور میں ان سے احتسابی سوال پوچھا گیا کہ انہیں ملنے والے کرتے کا کپڑا تو پیمائش میں کہیں چھوٹا تھا تو انہوں نے لمبے کرتے کے لیئے اضافی کپڑا کہاں سے حاصل کیا۔ یہی وہ مثال ہے جو حکمرانوں اور صاحب منصب افراد کے احتساب کا ماخذ سمجھی جاتی ہے۔ خود جج صاحبان اپنے ریمارکس اور آبزرویشنز میں یہ بات دوہراتے رہتے ہیں کہ جج کوئی مقدس گائے نہیں ہیں ۔ انکا بھی احتساب ہو سکتا ہے ۔ اسی احتساب کے لئے آئین میں ایک طریقہ کار وضع ہے کہ ایک سپریم جوڈیشل کونسل ہو گی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسکے سربراہ ہونگے اور ممبران میں سپریم کورٹ کے دو سینیئر جج صاحبان اور صوبائی ہائی کورٹس کے دو سینیئر چیف جسٹس صاحبان اس کے رکن ہونگے ۔ کسی بھی جج کے خلاف کوئی بھی شکایت صرف اسی کونسل میں دائر ہو سکے گی ۔ کونسل کا فیصلہ حتمی ہو گا لیکن آئین پاکستان کی بدقسمتی کہیئے کہ کبھی بھی آئین کی روح کے مطابق عمل نہ ہو سکا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ سپریم جوڈیشل کونسل آئینی طور پر ایک با اختیار ادارہ ہے اور اس کی کاروائی میں مداخلت نہیں کی جا سکتی، اس حقیقت کے باوجود سپریم کورٹ نے جوڈیشل ریویو کے نام پر سپریم جوڈیشل کونسل کے معاملات میں نہ صرف مداخلت کی بلکہ اسکا اختیار سماعت بھی چھین لیا ۔ یہ ایک ایسا آئینی تجاوز ہے جس کا اظہار بہت سے قانون دان کر چکے ہیں بلکہ جج صاحبان کو باور بھی کرا چکے ہیں کہ جج کے خلاف شکایت سننے اور فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار صرف اور صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے اور یہی آئین کی منشاء ہے ۔ لیکن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مقدمہ میں عدالت نے خود ہی یہ نظیر قائم کی۔ اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمہ میں اس آئینی انحراف اور رو گردانی کو مزید تقویت دے دی۔
اب صورتحال یہ بن گئی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی جج کے خلاف کوئی شکایت آئے گی تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا جائے گا اور سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلہ سے پہلے ہی سپریم کورٹ مداخلت کر کے کونسل کا اختیار سماعت خود لے لی گی ۔ جو فیصلہ دے گی اس میں نظر ثانی کی گنجائش بھی ہو گی اور دیگر عدالتی اور قانونی موشگافیوں کا سہارا بھی ہو گا۔ جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں احتسابی عمل نسبتا کڑا اور مختصر ہوتا ہے ۔ اس کی مثال معزول کر دیئے جانے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ہے ۔ صدیقی صاحب کو جس ریفرنس میں معزول کیا گیا وہ کوئی مالیاتی بے ضابطگی یا کرپشن کا ریفرنس نہیں تھا بلکہ ان کے خلاف جوڈیشل مسکنڈکٹ کی شکایت تھی۔ معزولی کے فیصلے کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے جو گزشتہ دو سال سے زیر التواء ہے۔ یہ تفریق کیوں ہے ،یہ وہ دوہرا معیار ہے جوصاف عیاں ہے۔ ایک معاملے میں سپریم کورٹ صدر مملکت کے ایک با اختیارفورم میں بھیجے گئے ریفرنس کو کالعدم قرار دیتی ہے ، پھر اسی مقدمے میں نظر ثانی کرتی ہے اور مالیاتی معاملات کی مزید چھان بین سے بھی روک دیتی ہے ۔ جبکہ یہ اختیار سپریم جوڈیشل کانسل کا ہے ۔
اور دوسرے مقدمے میں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل سننا بھی گوارا نہیں کرتی ۔ یہ وہ دوہرا معیار ہے ۔ آج جج صاحبان کے احتسابی معاملات میں دیئے گئے فیصلوں کے بعد جو سوال سب سے ذیادہ جواب طلب اور غور طلب ہے وہ یہ کہ Who will judge the judges? ہر موقع پر احتساب احتساب کی رٹ لگانے والے جج صاحبان کا احتساب کیونکر کر پائیں گے ؟ عدالت عظمیٰ کے ہر جج کے خلاف اگر کوئی شکایت ہو گی تو وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جا کر بھی پہلے بالواسطہ طور پر اور پھر بلا واسطہ طور پر سپریم کورٹ میں موجود برادر ججز کے پاس ہی آئے گی۔ان جج صاحبان کے علم میں ہر وقت یہ بات موجود رہے گی کہ آج اگر ہمارا یہ ساتھی کٹہرے میں ہے تو کل ہم بھی اسی کٹہرے میں ہو سکتے ہیں ۔یوں اس سوچ کے ساتھ ایک جج وہ رعایت برت سکتا ہے جو مستقبل میں اسکے مشکل وقت میں آسانی بن سکے ۔ لیگل جور س پروڈنس کا دنیا بھر میں ایک مسلمہ اصول ہے کہ A judge cannot be a judge in his own cause (کوئی جج اپنے مفاد کے معاملے میں جج نہیں ہو سکتا) ۔ آج اگر یہ تنقید ہو کہ جج صاحبان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمہ میں فیصلہ دے کر اپنے مفاد کا بھی تحفظ کیا تو ایسا کہنا بے جا نہ ہو گا ۔ کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مقدمہ سننے والے دس رکنی بنچ کے کچھ اراکین ایسے بھی تھے جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات درج ہیں ۔ اب ان شکایات کی سماعت کا وقت آ بھی جائے تو شاید ان جج صاحبان کے لیئے کچھ زیادہ پریشان کن معاملہ نہ ہو کیونکہ مشکل سے نکلنے کی عدالتی نظیریں موجود ہیں ، وہ نظیریں جو معزز جج صاحبان نے خود بنائی ہیں ۔