درجہ حرارت میں اضافہ اور پاکستان میں سیلاب
زمانہ قدیم سے صنعتی انقلاب کے اثرات کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت ہر سال بتدریج بڑھ رہا ہے۔کرئہ ارض کا درجہ حرارت ماپنے کا کام 1880ء میںشروع ہوا۔ جب سے 1980ء تک کے سوسال کے عرصے میں ہر دس سال بعد 0.07ڈگری سینٹی گریڈ یا 0.13 فارن ہائیٹ بڑھتا رہا ہے۔ البتہ 1980ء کے بعد سے 42سال میں کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ دگنا ہوگیا ہے۔ اَب ہر سال یہ اضافہ 0.18سینٹی گریڈ یا 0.32 فارن ہائیٹ کی رفتار سے ہو رہا ہے۔ موسمیات پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر ہم نے کرئہ ارض کے درجہ حرارت کے بڑھنے کی رفتار کو کنٹرول نہ کیا تو اس کے ا نتہائی سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں قحط، خشک سالی، جنگلات میں آگ۔ جنگلی حیات کی اموات اور سیلابوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ آسٹریلیا۔امریکہ اور افریقہ کے جنگلات میں تقریباً ہر سال خوفناک آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔ جس سے جنگلات اور جنگلی حیات کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان سیلابوں کی وجہ سے ایشیاء کے ان شہروں میں ہوتا ہے جو دریائوں کے کنارے آباد ہیں۔کرئہ ارض کے درجہ حرارت کے بڑھنے سے پاکستان کا نقصان دو طرح سے ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی زرعی آبپاشی کی 90فیصد ضروریات دریائوں سے منسلک نہری نظام سے پوری ہوتی ہے اور چونکہ کرئہ ارض کے درجہ حرارت کے بڑھنے سے ہمالیہ پہاڑوں کی برف پگھلنے کی وجہ سے 2025ء میں پاکستان کے بدترین خشک سالی کا شکار ہونے کا خطرہ ہے او ردوسری طرف ان پہاڑوں سے پگھلنے والی برف سے پاکستان کے ان شہروں میں جو دریائوں کے کنارے آباد ہیں سیلاب آنے کی وجہ سے بھاری جانی اور مالی نقصان ہوتا رہے گا۔پہاڑوں سے برف پگھلنے کے علاوہ کرئہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے طوفانی بارشوں کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ پاکستان جو پہلے ہی مختلف وجوہات کی بناپر سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ وہ سیلابوں کی تباہی سے انتہائی مالی ، معاشی اور معاشرتی مشکلات کا شکار ہے۔ انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ کا پاکستان صرف ایک فیصد سے بھی کم ذمہ دار ہے۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیوگوتیرس Antonio Guterresنے حال ہی میں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور جی 20 کے ممالک جن کی صنعتی ترقی کی وجہ سے گیسوں کے اخراج سے کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے ان کو پاکستان کی دل کھول کر مدد کرنی چاہئے۔
اَب جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اتنا کھل کر پاکستان کے حق میں بیان دے دیا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ اس سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے جی 20 کے بڑے بڑے ممالک چین، امریکہ، برطانیہ، فرانس کینیڈا، جرمنی، آسٹریلیا، روس ا ور یورپین یونین میں اپنے وفود بھیجے اور امداد کے بارے میں درخواست کرنے کے علاوہ قرضوںکی ادائیگی کے التوا اور نئے ادائیگی کے پروگرام کے بارے میں بات چیت کرے۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے بھی درخواست کی جائے کہ چونکہ سیلاب کی تباہی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور سیلاب زدگان کی بحالی پر ہونے والے اقدامات پر خطیر رقم درکار ہوگی۔اس لئے آئی ایم ایف قرضے کے حجم میں اضافے کے علاوہ مالی امداد بھی فراہم کرے۔ آئی ایم ا یف کا سیلاب کی تباہی کو نظر انداز کرنا اور چپ سادھ لینا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ممالک کے لئے ناقابل فہم رویہ ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کی مد میں مختص رقم موجود ہے۔وزارت خارجہ کو اس سلسلے میں وزارت خزانہ کے ساتھ مل کر کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے اور جتنا جلد ممکن ہو سکے اسلام آباد میں جی 20 کے ممالک کی ایک کانفرنس کی میزبانی کرنی چاہئے جیسا کہ 2005ء کے زلزلہ سے ہونے والی تباہی کے بعد کی تھی۔ اگرچہ سیلاب سے ڈوب کر مرجانے والوںکی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ ہے لیکن دنیا کو یہ بات باور کرانی ہوگی کہ سیلاب کے بعد پھوٹ پڑنے والی وبائی امراض سے ہونے والی اموات لاکھوں سے تجاوز کر سکتی ہیں۔ سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کئی ارب ڈالر درکار ہوں گے ا ور مکمل بحالی کے کام میں پانچ سال سے بھی زیادہ لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فصلوں کی تباہی کے بعد خوراک کی کمی اور قحط پڑنے کا خدشہ بھی لاحق ہے۔ مویشیوں کی وسیع پیمانے پر ہلاکت کی وجہ سے دودھ اور گوشت کی کمی بھی واقع ہوگی اور مویشیوں پر گزارہ کرنے والے دیہی علاقوں میں آباد لوگ فاقہ کشی پر مجبورہو جائیں گے۔ ان کی امداد بھی ایک صبر آ زمامرحلہ ہے۔ سیلاب زدگان کی بحالی کے کاموں کے لئے جی 20ممالک کی امداد ناگزیر ہے۔ ان ممالک کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری بھی ہے کہ ان کی وجہ سے پاکستان میں ہونے والی تباہی کے اثرات کم کرنے کے لئے جلد اور بھرپور اقدامات کریں۔بصورت دیگر پاکستان کو یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اُٹھانا چاہئے اور اُمید ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے پاکستان کے دورے پر دئیے گئے بیانات کی روشنی میں اقوام متحدہ کے بیشتر ارکان مثبت رویہ اپنائیں گے۔ ان شاء اللہ