ٹرانس جینڈر ایکٹ (تحفظ حقوق) 2018
چوہدری عابد حسین ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کے محنتی اور مخلص کارکن ہیں جو سیاسی اور سماجی دونوں میدانوں میں سرگرم عمل رہنے کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پہ بھی گہری نظر رکھتے ہیں ۔ چند ہفتے قبل چوہدری صاحب نے میری توجہ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کی طرف دلائی تو میں نے کسی خاص ردعمل کا مظاہرہ کیا نہ ہی اس معاملے کو قابل توجہ سمجھا کیونکہ اس سے قبل میں سینیٹر مشتاق صاحب کی تقریر سن چکا تھا اور کئی دوسرے لوگوں کی طرح اس معاملے کو اچھالنے کی وجہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ سمجھ رہا تھا لیکن چوہدری صاحب کے اصرار پر میں نے جب اس ایکٹ کا سرسری سا مطالعہ کیا اور سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے کچھ ہلچل دیکھی تو کچھ واہمے کچھ وسوسے کچھ مشکوک ہیولے سے گمان سے گزرے۔جوں جوں اس کے خدو خال اور مضمرات کا جائزہ لیا توں توں حیرت کے سمندر میں غرق ہوتا چلا گیا پہلے تو یقین ہی نہ آیا کہ عظیم مشرقی روایات کے حامل معاشرے اور اسلام کے نام پہ وجود میں آنے والے ملک کی پارلیمان میں ایسے لغو اور بے ہودہ قانون سازی ہونے جا رہی ہے جو معاشرے کو مادر پدر آزادی ،اخلاقی پستی اور خلاف اذن الٰہی راہ پہ ڈال سکتا ہے۔ بظاہر یہ ایکٹ بہت خوبصورت اور متاثر کن ہے جو خواجہ سراؤں (ہیجڑوں) کے حقوق کے تحفظ کے نام پہ وجود میں آ رہا ہے بلاشبہ یہ معاشرے کا مظلوم ترین اور نظر انداز کیا گیا طبقہ ہے اگر بات حقیقتاً ان کے حقوق کے تحفظ کی ہوتی اور نیت واقعتاً ان کی فلاح و بہبود ہوتی تو یقیناً کسی کو اعتراض نہ ہوتا بلکہ یہ بہت قابل تعریف و ستائش ہوتا لیکن یہ سن کر آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے کہ یہ قانون پیدائشی ہیجڑوں کے تحفظ کے لیے کم لیکن نئے ہیجڑے بنانے کیلیے زیادہ استعمال ہو سکتا ہے۔ گو کہ اس ایکٹ میں الفاظ کے چناؤ میں احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور حتیٰ الامکان اسے خواجہ سراؤں کے امور
کے متعلق قرار دیا گیا ہے لیکن جان بوجھ کر ایسے چور دروازے اور خلاء چھوڑے گئے جو کسی فرد کی جنس gender کا تعین قدرت کی طرف سے دیے گئے جنسی اعضاء کی بجائے اس کے ذاتی محسوسات جذبات اور فطری میلان self perceived کی بنیاد پر ہوگا سیکشن 2 (N) میں مخنث (ہیجڑے) کی تین طرح کی تعریفیں کی گئی ہے
"اول جو پیدائشی یا فطری طور پر مرد یا عورت نہیں بلکہ ان کا امتزاج (blend) ہیں دوم جو پیدائشی مرد تھے لیکن بذریعہ جراحی (excision یا castration) خود کو بدل لیا سوم ایک ٹرانس جینڈر مرد یا ٹرانس جینڈر خاتون یا خواجہ سراء یا کوئی بھی شخص جس کی صنفی شناخت یا صنفی اظہار ان معاشرتی معیارات یا ثقافتی توقعات کے برعکس جو اسے بوقت پیدائش تفویض کیے گئے تھے۔"
اول الذکر تو وہ پیدائشی خواجہ سراء یا ہیجڑے ہوئے جو پیدائشی طور پر نامکمل ہیں اور یہی اصل ٹرانس جینڈر ہیں ان پہ رائے کے اظہار کی ضرورت نہیں دوسری کیٹگری میں شمار لوگوں کی تعریف انتہائی مبہم اور غیر مکمل ہے اس میں قدرتی اور فطری وقوع پذیر تبدیلی یا جان بوجھ کر ایسی حرکت کے فرق کا ذکر نہیں یعنی اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اعضاء میں تغیر و تبدل پیدا کرے تو یہ ایکٹ اسے روکنے یا سزا دینے کا کوئی میکنزم مہیا نہیں کرتا یعنی کھلی چھٹی۔اب آتے ہیں تیسری قسم پہ جو اصل فساد کی جڑ ہے اس تعریف میں مرد یا خاتون ٹرانس جینڈر خواجہ سرائ کے ساتھ شخص( person) کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے قارئین یقیناً جانتے ہوں گے کہ انگریزی کا لفظ پرسن مرد و خواتین دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے حیرت انگیز طور پر ہیجڑے یا خواجہ سراء کی تین اقسام بیان کرنے کے بعد لفظ پرسن یعنی شخص کا اضافہ کیوں کیا گیا کیا اس سے ایکٹ بنانے والوں کو بدنیتی عیاں نہیں ہوتی اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کئی اس سارے معاملے کے تانے بانے کسی خفیہ تحریک سے تو نہیں جا ملتے تو جو اس آڑ میں کچھ اور مقاصد کی تکمیل چاہتی ہو؟ کیا یہ اضافہ ایک مکمل مرد یا مکمل خاتون کو ٹرانس جینڈر اور ٹرانس جینڈر سے مرد کو عورت اور عورت کو مرد کی شناختی دستاویزات کا استحقاق فراہم نہیں کر رہی؟ اور اگر ان سوالوں کا جواب مثبت ہے تو یقین جانیے کہ یہ سارے رستے ہم جنس پرستی کی دلدل کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ مغربی دنیا میں ابتدا میں عورت کے حقوق پھر ٹرانس جینڈرز کے حقوق کی تحریکیں چلی تو انھیں بہت سراہا گیا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ جب ان تحریکوں کے اصل مقاصد سامنے آئے تو ان تحریکوں کے مداحوں کو مایوسی ہوئی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی یہ زہر معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکا تھا اور ایک عفریت کی مانند اخلاقیات اور مذہب کو چٹ کر چکا تھا۔
یہ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی اس ایکٹ کی ایک اور سیکشن مزید تباہ کن اثرات لیے ہوئے ہے۔ اب آتے ہیں اس ایکٹ کی سیکشن 2 (f) کی جانب جہاں صنفی شناخت gender identity کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ "صنفی شناخت سے مراد کسی شخص (person)کی اندورنی اور شخصی حس کی بناء پہ وہ تعین کرے گا کہ وہ مرد ہے، عورت ہے یا دونوں کا ملغوبہ (blend) ہے یہ صنف اس کے پیدائشی صنف کے مطابق یا برعکس ہو سکتی ہے"
یہاں بھی دانستہ طور پہ لفظ person ہی استعمال کیا گیا ہے اگر یہ ایکٹ ٹرانس جینڈرز کے متعلق ہے تو person کی اصطلاح بار بار استعمال کر کے اس کا دائرہ کیوں وسیع کیا جا رہا ہے ایسے چور راستے یقیناً شکوک وشبہات کو مزید تقویت دیتے ہیں آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ اس بیان کردہ تعریف و تشریح میں بھی طبعی معائنہ کا بلکل تذکرہ نہیں بلکہ اندرونی و شخصی حس کو ہی تبدیلی جنس کیلیے کافی سمجھا گیا ہے۔ یہ احساس پیدائشی صنف کے مطابق ہو چاہے اس کے برعکس نادرا سمیت تمام ادارے اسے تسلیم کر کے دستاویزات جاری کرنے کے قانوناً پابند ہونگے۔ یہ بات یہاں بھی ختم نہیں ہو رہی آگے چل کر مزید وضاحت کے ساتھ صنفی شناخت کو بیان کیا گیا ہے سیکشن 3 (1) کے مطابق " ہر ٹرانس جینڈر شخص کو یہ استحقاق حاصل ہوگا کہ اس کے ذاتی ادراک (اپنے احساسات) کے تحت اس کی صنفی شناخت کو تسلیم کیا جائے"۔ یہاں یہ احتیاط ملحوظ خاطر رکھی گئی ہے کہ صرف شخص کی بجائے ٹرانس جینڈر شخص درج کیا گیا ہے لیکن ایک بار پھر خود کو صنفی لحاظ سے صرف محسوسات و حساسیت کو ہی کافی قرار دیا گیا دیگر کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی یہ سیکشن اس بات کی بھی وضاحت نہیں کرتی کہ self perceived کی بنیاد پہ اگر کوئی سمجھے کہ اس کی جنس تبدیل ہو گئی ہے یا وہ بظاہر مرد ہے لیکن اس کا میلان عورتوں کی طرف زیادہ ہے یا اس کے برعکس صورتحال ہے تو اس کے ثبوت یا تصدیق کے طور پہ طبعی معائنہ بھی کروایا جائے گا یا یہ زبانی دعویٰ کافی ہوگا کہ وہ خود کو اپنی پیدائشی جنسی صنف کے برعکس محسوس کر رہا ہے۔ یہ بہت بڑا خلاء ہے بظاہر اس سیکشن کی تشریح یہی نظر آتی ہے کہ خود شناسی یا اندرونی احساسات کے زیر اثر یہ دعویٰ کرنا کافی ہے کہ میری جنس (gender) تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے۔اگر اس معاملے پہ پارلیمان کی کوئی وضاحت یا ترمیم سامنے نہ آئی تو سینیٹر مشتاق کی یہ بات سو فیصد درست ہوگی کہ یہ قانون ہم جنس پرستی کا دروازہ کھول دے گا ویسے عام فہم بات ہے کہ معاشرے کے مروجہ اصولوں کے برعکس قانون سازی کے ذریعے اغیار کے افکار و افعال کو تحفظ فراہم کرنا تباہی و بربادی کا باعث ہی بنے گا میرے ناقص فہم کے مطابق یہ ایکٹ بظاہر دیکھنے میں آئین پاکستان کے ابتدائیہ (preamble) کی صریح خلاف ورزی ہے جہاں قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی کی قطعاً اجازت نہیں۔ میرے خیال میں یہ ایکٹ اعلیٰ عدلیہ میں ضرور چیلنج ہوگا