سیلاب نے سیاسی صورتحال تبدیل کر دی
فیصلے وقت کی قید میں ہوتے ہیں اور وقت طاقتوروں کی مٹھی میں۔ پنجابی میں کہتے ہیں گل ویلے دی، پھل موسم دا یعنی ہر بات اپنے وقت پر مناسب اور ہر پھل اپنے موسم میں اچھا لگتا ہے۔ اب یہ توسیع کا موسم ہے یا نہیں، نئے چیف کی تعیناتی کا وقت ہوا یا نہیں مگر جس بحث کا آغاز ہو چکا ہے اس نے وقت اور موسم دونوں پر اثر ضرور ڈال دیا ۔ تین سال قبل جب وزیراعظم نے قوم کے وسیع تر مفاد میں اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کر کے آرمی چیف کی مدد کا تعین کیا اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ کہ جمہوری سیاسی قیادت نے بھاری اکثریت سے اس ترمیم میں ووٹ ڈالا۔ ۔کیا عجیب بات ہے کہ وطن عزیز میں آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کے تقرر سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ عمران خان انتخابات طلب کر رہے ہیں اور قبل از وقت انتخاب خراب معیشت کے باعث ممکن نظر نہیں آ رہے، بظاہر سیلاب نے بھی صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر فیصلہ ساز اداروں میں بحث مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد سے اب اسمبلیوں کی توسیع تک جا پہنچی ہے۔موجودہ حالات میں عمران خان کی سیاست کو چند لمحے سانس لینے اور رکنے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ان کی جماعت کے اندر بھی ردعمل پیدا ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ قائداعظم اپنے اصل سربراہ سے رابطے قائم کر رہی ہے تو دوسری جانب خود عمران خان پنجاب میں اپنے اراکین سے رابطوں کا انکشاف کر چکے ہیں۔تحریک انصاف کے مستقل مزاج اراکین سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے لیے محض مقبولیت کافی نہیں، دیگر لوازمات بھی دستیاب ہونا ضروری ہیں جس کے لیے سرِدست کوئی حیلہ نظر نہیں آ رہا۔معاملہ امریکی سازشی خط سے عدالت میں معافی تک، حقیقی آزادی سے امریکی حکام سے بند کمروں میں ملاقاتوں تک اور آرمی چیف کی تعیناتی سے مدت ملازمت میں توسیع تک آن پہنچا ہے۔ ممکنات میں سے ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں آئندہ چنددنوں میں عمران خان جنرل باجوہ کی توسیع کی خوبیاں بیان کرتے دکھائی دیں۔ممکن ہے کہ میرٹ پر آرمی چیف لگانے سے بات پارلیمنٹ سے منتخب آرمی چیف تک جا پہنچے جو ان کے دور حکومت میں دیکھنے میں آئی۔ نئے وزیراعظم کی تعیناتی تک نئے چیف کی تقرری کرنے کی تجویز بہرحال ایک ہی پیغام دے رہی ہے کہ فی الحال جانے کی باتیں جانے دو؟
بھارت کا 6ستمبر1965کوپاکستان فتح کرکے لاہورمیں ناشتے کاخواب پاکستان کے جوانوں نے چکناچورکردیاجس کے بعدیقیناانہیں خواب میں بھی پاکستان کے شیرجوان نظرآتے ہونگے ایک سلجھا ہوا آدمی چاہے کسی بھی مذہب یا فرقے کا ہو وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ معاشرے کا ماحول خراب ہو یالوگوں میں لڑائی ہو پر کچھ بد ترین لوگ اپنے تھوڑے سے مفاد کی خاطر لوگوں کی جانوں سے کھیل جاتے ہیں اگر بات کریں جنگ 1965کی تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اپنا سیاست میں نام اونچا کرنے کیلئے بھارتی فوج کو پاکستان سے جنگ کرنے کیلئے روانہ کردیا۔مگرجو کچھ ہوا آج بھی بھارت رورو کے یادکرتا ہے اور ہم اپنے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہتے ہیں اور ہمارے حکمران بھی ضرور فخرکرتے ہوں گے مگرا ن کو اس چیز کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے ملک کی طرز حکمرانی قیام پاکستان کے اعلی مقاصد اوراہداف کو احسن طریقے سے قومی وملی یکجہتی میں نہ پروسکے جس کی وجہ سے مضبوط قیادت فراہم کرنے کا تسلسل اور تواترقائم نہ ہوسکاقیام پاکستان سے ہی پائیدار اداروں کا قیام فقدان جن کا انحصار ٹھوس ملی امنگوں کو سمیٹے ہوئے اورقانون انصاف کے اعلی اصولوں کو اپناتے ہوئے شفاف اور اجلا طرز حکمرانی اورحق حکمرانی جمہوری قدروں کے تحت پرامن ملک میں منتقل ہونے کا اہل ہوتا مگراس میں بری طرح ناکامی ملی۔ہمہ وقت مسائل اور وسائل جو ایک نوزائیدہ مملکت کوقدرتی طور پر پیش آتے ہیں مگرکچھ ایسا بھی نہ ہوا۔یہ تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کا پس منظرہے جس کیلئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی ہیں قیام پاکستان سے لیکرآج تک بھارت نے پاکستان کا الگ وجود کبھی نہیں تسلیم کیا یہاں تک کہ وہ مردود ہمیشہ پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش کرتا رہتا ہے مسلمانان برصغیر کی انتھک محنتوں اور قربانیوں کے بعداخرکارپاکستان 14اگست 1947کو ایک بڑی اسلامی مملکت بن کے ابھرا مگربھارت کی منافقت اور پیٹھ پیچھے وار کرنے کی عادت کہاں جاتی 1948میں جب کشمیر پر حملہ کیا تو پاکستان سمجھ گیا کہ ان کے ارادے ناپاک ہیں جب پاکستان نے اینٹ کا جواب پتھرسے دیا تو وہ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا ۔