چیف جسٹس از خود نوٹس اختیار میں کمی کا بل پیش ، تمام انتخابات ایک ساتھ
اسلام آباد (نامہ نگار+خبر نگار خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے اور سپریم کورٹ کے بینچوں کی تشکیل کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ سپیکر نے ایوان کی رائے لینے کے بعد بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کو بھجوا دیا۔ وزیر قانون کی طرف سے وکلا کی فلاح وبہبود اور تحفظ کا بل بھی ایوان میں پیش کیا گیا جسے قانون و انصاف کی کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔ وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی طرف سے ایوان میں پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور منظور کر لی گئی۔ بل پیش کرنے کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف بھی ایوان میں موجود تھے۔ اس سے قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بل کی منظوری لی گئی۔ دونوں بلوں کی آج قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف اور قومی اسمبلی اور کل جمعرات کو سینٹ سے منظوری کا امکان ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا۔ ایوان میں بلز پیش کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب معمولی باتوں پر سوموٹو نوٹس لیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بعض ازخود نوٹس جگ ہنسائی کا باعث بنے، بعض ازخود نوٹسز سے سپریم کورٹ کی ساکھ متاثر ہوئی۔ وزیر قانون نے مزید کہا کہ وزارت قانون نے عدالتی اصلاحات کا بل کابینہ میں پیش کیا، کابینہ نے منظور کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے موجودہ رولز میں سوموٹو لینے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ اپنے رولز خود ریگولیٹ کرتی ہے، 184 تھری میں سپریم کورٹ کسی مقدمے میں از خود نوٹس لیتی ہے۔ ازخود نوٹس کے استعمال سے سپریم کورٹ کے وقار کو نقصان پہنچا، ماضی میں بہت سارے کیسز میں نظرثانی اپیل سننے میں تاخیر کی گئی، گزشتہ روز 2 جج صاحبان کا جو موقف آیا ہے اس نے مزید تشویش پیدا کردی۔ جو مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر ہو گا وہ ایک کمیٹی کسی بینچ کو بھیجے گا، کمیٹی طے کرے گی کہ معاملہ انسانی حقوق کا ہے یا نہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ازخود نوٹس کا معاملہ کم از کم 3 رکنی بینچ کو بھیجا جائے، ازخود نوٹس میں 3 سینئر ججز جن میں چیف جسٹس بھی شامل ہوں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے رولنگ دی کہ سپریم کورٹ سے متعلق ترمیمی بل کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے، سپریم کورٹ سے متعلق دونوں ترمیمی بل کمیٹی کو بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرڈر آف دی ڈے یہ تھا کہ سپریم کورٹ سے متعلق بل آج ہی پاس کیے جائیں، ایوان کی رائے کے مطابق دونوں بل لا اینڈ جسٹس کمیٹی کو بھیجے جارہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے یہ بھی کہا کہ لا اینڈ جسٹس کمیٹی سے درخواست ہے کہ رپورٹ جلد ایوان میں پیش کرے، آئین کے آرٹیکل 184 تین کے غلط استعمال پہ بات ہوتی رہی ہے۔ مجوزہ ترمیمی بل میں مجموعی طور پر 8 شقیں متعارف کروائی گئی ہیں۔ ترمیمی بل میں کہا گیا کہ ازخود نوٹس میں نظرثانی کی اپیل میں وکیل بدلنے کی سہولت حاصل ہوگی۔ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمی کی جانب سے اصل دائرہ اختیار کے استعمال کا موضوع مختلف فورمز پر زیر بحث تھا۔ کابینہ کی طرف سے منظور کردہ اور قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل میں بینچوں کی تشکیل کے بارے میں کہا گیا کہ عدالت عظمی کے سامنے ہر وجہ، معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔ عدالت عظمی کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمی کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے بڑے بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔ بل میں قانون کے دیگر پہلوﺅں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی جانب سے ایوان میں ایک قرارداد بھی پیش کی گئی، یہ ایوان سیاسی معاملات میں عدلیہ کی بے جا مداخلت کو سیاسی عدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے۔ یہ ایوان سو موٹو کیس 2023(1) میں چار جج صاحبان کے فیصلے اور رائے کی تائید کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ توقع رکھتا ہے کہ اعلی عدلیہ سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی۔ یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار آئینی ادارہ ہے جو آئین کے آرٹیکل218 کے تحت شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات میں مداخلت نہ کی جائے اور الیکشن کمیشن کو اس کی صدابدید کے مطابق سازگار حالات میں الیکشن کا انعقاد کرانے دیا جائے۔ یہ ایوان یہ بھی قرار دیتا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ یہ ایوان سمجھتا ہے کہ آرٹیکل218 کی روح کے مطابق شفاف اور آزادانہ انتخابات کے لیے آرٹیکل 224 پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے تمام اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت غیر جانبدار نگران حکومتوں کے تحت ہونے چاہئیں تاکہ حقیقی سیاسی استحکام کی طرف بڑھا جا سکے۔ یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ وہ دستوری معاملات جن میں اجتماعی دانش درکار ہو اور اس کا مطالبہ بھی آجائے، ایسے معاملات کی سماعت عدالت عظمٰی کا فل کورٹ کرے۔ سپیکر نے قرارداد ایوان کے سامنے رکھی جسے متفقہ طور پر کر لیا گیا۔ اس سے پہلے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر سید نوید قمر نے کہا کہ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردینا چاہئے۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے لئے یہ فیصلہ کن موڑ ہے۔ دونوں ادارے ایسے فیصلے کریں جو پوری قوم کو قابل قبول ہوں، عدلیہ نے آئین پر عملدرآمد کی بجائے سیاستدانوں کی طرح کام شروع کردیا، سوموٹو اختیارات کو پوری طرح سے غلط استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین کو پامال نہیں کرنا چاہئے۔ اداروں کے درمیان اختیارات کے حوالے سے آئین واضح ہے، ملک کو مارشل لاز کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، سوموٹو کے اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا۔ سرکاری افسروں کے تبادلے کے اختیارات تک کو عدلیہ نے استعمال کیا۔ سوموٹو کے اختیارات کو استعمال کرکے ایک منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ہٹایا گیا۔ عدلیہ نے اپنے اختیارات کا حاصل پاورز سے زیادہ استعمال کیا۔ اسی طرح ایک اور وزیراعظم کو بھی ہٹایا گیا۔ کیا کبھی عدلیہ کو وزراءاعظم کو ہٹانے کا اختیار حاصل رہا؟۔ لیکن عدلیہ نے سیاسی سائیڈ لینا شروع کردیں۔ سوموٹو اختیارات کو پوری طرح سے غلط استعمال کیا گیا، بغیر ضروری پراسیس کے اور اپیل کے حق کے سوموٹو کا اختیار دیا گیا، سوموٹو کا اختیار ایک فرد استعمال کرتا ہے ایک فرد اپنے آپ کو ساتھیوں سے مشاورت کا بھی روادار نہیں سمجھتا۔ ہمیں آئین کی روح کو سمجھنا ہوگا اور انصاف کو یقینی بنانا ہوگا۔ میرے مستقبل کا فیصلہ کہ اسمبلیوں کا انتخاب کب ہوگا اس میں اگر مجھے فریق نہیں بنایا جائے گا تو کون ذمہ دار ہے، تمام ججز اکٹھے بیٹھیں اور کیس سن کر فیصلہ کریں، کچھ مخصوص افراد کی لینز سے نہ دیکھا جائے، آئین کی تشریح پوری کورٹ کو کرنا چاہئے نہ کہ مخصوص افراد کو، نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردینا چاہئے۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے لئے یہ فیصلہ کن موڑ ہے۔ دونوں ادارے ایسے فیصلے کریں جو پوری قوم کو قابل قبول ہوں۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اسی عدلیہ نے ایسے کیس میں سزا دی جس میں آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے پھر بھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ عدلیہ نے سازش کرکے ایک منتخب وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر سزا دی۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)کی رہنما سائرہ بانو نے کہا کہ یہ جو ون مین شو ہے یہ ایک ادارے (عدلیہ) کیلئے ہے یا سب اداروں کیلئے ہو گا۔ مطلب یہ کہ آرمی چیف ایک نہیں ہوگا بلکہ سب جنرل آرمی چیف ہوں گے۔ سائرہ بانو نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے اداروں پر انگلیاں اٹھتی تھیں، نواز شریف کالا کوٹ پہن کر یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ نہیں گئے تھے، عدلیہ ہو یا افواج پاکستان دونوں ہمارے لیے اہم ہیں، ایسا کام نہ کریں کہ چیزیں ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں، جے ڈی اے قومی اسمبلی سے عدلیہ سے متعلق قانون سازی کی مخالفت کرتی ہے۔ سائرہ بانو نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ آپ لوگوں نے معیشت تباہ کر دی، اب اداروں کے پیچھے پڑ گئے ہیں، جب اپنے پاﺅں جلے تو ادارے کے پیچھے پڑ گئے، یہ عوام کا ایوان ہے یا ان کے اپنے مسائل حل کرنے کا ایوان ہے، میں تو سمجھ رہی تھی عوام مہنگائی میں پس رہی ہے شاید ان کی بات ہو گی، توشہ خانہ کا ذکر تو ہوا لیکن یوسف رضا گیلانی کے ہار کا ذکر کرنا بھول گئے۔ جی ڈی اے کی رہنما سائرہ بانو نے کہا ایوان میں عوام کی بات کرنی چاہیے، جب چیزیں ہاتھ سے پھسل جائیں گی تو نقصان عوام کا ہو گا، بہت سال پہلے کہا گیا ہم ادھر تم ادھر، یہ تو ان کی بقا کی جنگ ہے، کہا گیا 2018 ءمیں عمران کو مسلط کیا گیا، ہم اپنا لہو کس کے ہاتھ میں تلاش کریں، عمران کو لانے والوں کو تو انہوں نے چھوڑ دیا، داغی پھلوں سے تو کوئی فروٹ چاٹ نہیں بناتا، انہوں نے تو حکومت بنا دی۔ سائرہ بانو نے مزید کہا کہ آپ قانون سازی کر رہے ہیں، یہ تو کٹی، پھٹی اسمبلی ہے، میں اس قانون سازی کی مخالفت کرتی ہوں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قادر مندوخیل نے کہا کہ 5 ججوں کے پورے گھرانے کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، جس شخص کی ویڈیو آجائے سب کے سامنے اس جج کی کیا اہمیت ہے۔ قادر مندوخیل نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کہہ رہے ہیں ہماری تنخواہ کم کر دو الیکشن کراﺅ، بھائی تمہاری تنخواہ 17 لاکھ ہے، ہماری ایک لاکھ کچھ ہزار ہے، ہماری تنخواہ سپریم کورٹ کے نائب قاصد کے برابر ہے، یہ سوموٹو کیا ہوتا ہے، بندیال صاحب اکیلے ہی فیصلے کرتے ہیں، یہ ون مین شو بند کرو۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس آج دن 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔