• news

اے حوا تجھے سلام

عورت ہمارے مذہب اسلام کی طرف سے مجبور ہے نہ بے بس، یہ قرآن وحدیث اور سیرت سے واضح ہے۔ اسلام نے عورت کو حاکم، حکمت، سیاست، قیادت، انتظامات، مشاورت ہر چیز کا ترجمان بنایا ہے۔ رب کائنات نے مرد اور عورت کی تخلیق کے درجے کو برابر رکھا۔ اسلام کا سورج طلوع ہوا تو عورت کا استحصال بند ہوگیا۔ عورت کو دی جانے والی ذلت کو گرہ لگ گئی۔ عورت کو وقار اور حرمت سے نوازا گیا۔
 اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دیے اور عورت کی حیثیت مستحکم کی۔ عورت ہر رشتے میں خاندان،معاشرے اور ملک کی ناموس ہوتی ہے۔ اس کے لیے صدہا برس سے چادر اور چار دیواری کا نظریہ عین ہمارے دین کے مطابق ہے۔ سورةالنساءمیں بھی عورت کے حقوق کے متعلق مکمل ضابطہ حیات دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک میں پراپیگنڈا ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے جبکہ مغربی معاشرہ عورت کو مساوی حقوق دیتا ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ جہاں پر اسلام نے عورت کو عزت اور تحفظ فراہم کیا ہے وہیں عورت کے لیے جو قیود رکھی ہیں وہ دراصل اس کی عزت اور احترام کا موجب بنتی ہیں۔ اگر کہیں عورت کے ساتھ غیر مساوی رویہ روا رکھا جاتا ہے تو اس کی ذمہ دار حکومت،قانون یا مذہب نہیں بلکہ معاشرے کی فرسودہ روایات اور نظام ہے جس کی وجہ سے کچھ بندشیں بھی ہیں لیکن اس کے باوجود اسی پاکستانی معاشرے میں آج عورتیں ترقی کرتی نظر آتی ہیں۔
دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم کا تعلق بھی پاکستان سے تھا جبکہ کئی ممالک میں عورت مختلف وجوہ کی بنا پر سیاست میں آگے نہیں آسکتی۔ ہمارے معاشرے کی عورت کے مسائل کے سدِباب اور عدمِ تحفظ سے نبرد آزما ہونے کے لیے مختلف ادوار میں حکومتیں قانون سازی کرتی رہیں اور مختلف اصلاحات بھی کیں۔ یہ دوسری بات کہ بہت سی قانونی، معاشرتی اور سماجی پیچیدگیوں کی بنا پہ ان پر من و عن عمل درآمد نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں ہوسکے مگر جب پنجاب اسمبلی کی طرف سے تحفظ حقوقِ نسواں کے سلسلے میں منظور کیا جانے والا بل پاس ہوا تو اس پر بہت بحث چلتی رہی ہے۔ اس وقت بل کا بغور مطالعہ کیاگیا تو اس میں تجویز کیے گئے اقدامات بنیادی طور پر عورتوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے تھے جنھیں قانونی حیثیت دی گئی تھی تا کہ عورتیں اپنے تحفظ کی خاطر عدالتوں سے فوری رجوع کر سکیں۔
 مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف قانون ہی کسی کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہو سکتا بلکہ سماجی رسم و رواج اور رویے بھی معاشرتی مسائل کے تحفظ کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔ چونکہ تشدد اور عدمِ تحفظ کا شکار ہونے والی خواتین کی اکثریت کا تعلق غریب پسماندہ اور کم تعلیم یافتہ علاقوں سے ہوتا ہے ،لہٰذا وہاں قانون سے زیادہ مقامی روایات اور سوچ میں تبدیلی ضروری امر ہے۔
اسلام ایک فطری مذہب ہے اس نے سب کا کردار کھول کھول کر قرآن میں بیان کر دیا ہے پھر ہمارے اسلامی معاشرے میں کردار کے اختیار میں یہ تجاوز کیسا؟ مردوں کو عورت کے ساتھ ہر رشتے میں مساوات رکھنی چاہیے کیونکہ مرد اپنی شخصیت اور حیثیت میں اکیلا ہے مگر عورت پوری ایک نسل سنوارتی ہے۔
 اگر رضائے الٰہی سے عورت کا خاوند وفات پا جاتا ہے تو وہ اس کے ایک یا ایک سے زائد بچوں کو لے کر پوری زندگی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے محنت و مشقت کرتی اور معاشرے کے ظلم بھی سہتی ہے مگر دوسری طرف نظر ڈالیں تو مرد ایسا نہیں کرتا۔ عورت کو عدمِ تحفظ کے احساس سے نکالنے کے لیے جو بل پاس ہوا تھا تو میں یہ کہوں گی کہ یہ بل عورت کو تحفظ دلا سکتا ہے مگر اس صورت میں کہ اس پر ایمانداری کے ساتھ من و عن عمل درآمد کیا جائے۔
 اس کے علاوہ ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ گھروں میں موجود مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں اس بات کو ضرور مدنظر رکھیں کہ آپس میں ایک دوسرے کو عزت اور محبت دیں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے گھر سے عورت کو ہر طرح کا تحفظ دیں اور اسی مَد میں ساس اگر ماں بن جائے، نندبہن بن جائے دیور بھائی بن جائے اور بہو بیٹی بن جائے تو مردوں کے عدمِ تحفظ کا احساس بھی ختم ہو جائے گا اور عورت بھی گھر کی چار دیواری میں خود کو محفوظ سمجھنے لگے گی۔
حکومت پنجاب کا یہ فیصلہ یقینا خوش آئند ہے کہ بل پر مذہبی جماعتوں اور معاشرے کے مختلف طبقات سے مزید مشاورت کی جائے تاکہ اس کے عملی پہلو?ں کو زیادہ سے زیادہ موثر اور قابلِ عمل بنایا جا سکے اور حقیقی معنوں میں عدمِ تحفظ کا شکار خواتین کو تحفظ دلایا جا سکے اور تحفظ کے لیے ایسی شرائط یا اقدامات کیے جائیں کہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائیں اور والدین دونوں مل کر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کریں۔ یقین کریں ایک عورت کو تحفظ ملنے سے پوری نسل پہ مثبت اثر پڑے گا۔ 
عورت نے ہمیشہ اپنی ضروریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس معاشرے کی عزت وترقی کے لئے اکثرسب کچھ تیاگ دیا اور بدلے میں اسے یہ معاشرہ تنقید کی نوک پر رکھتاہے شاید کچھ لوگوں کو اعتراض کہ عورت کو تو بہت مقام دیاجاتاہے لیکن اگر ہم ان خواتین کی اوسط نکالیں جن کو عزت کے بدلے عزت ، محبت کے بدلے محبت دی جاتی ہے تو بہت کم اوسط نکلتی ہے۔ آج بھی مردوں کی غلطیوں کو اپنے آنچل میں باندھنے والی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں موجود ہیں مگر عورت کی ایک غلطی پر ساری عمر تنقید وظلم کا نشانہ بناکر قید کرنے والا معاشرہ ہی ہمیں دندناتا ہوا نظرآتاہے۔

ای پیپر-دی نیشن