کیسے کریں،اَفطارو سَحر ہم ،مِن شہرِ رمضان؟
معزز قارئین ! آج 26شعبان المعظم ہے۔ چند دن کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو جائے گا۔ ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ” ماہِ رمضان “ میں قرآن مجید نازل کِیا گیا تھا اور یہ کہ ” ماہِ رمضان ، ہمارے گناہوں کو جلا کر نِیست و نابود کردیتا ہے یا اِس مہینے میں تشنگی کی شدت بہت تکلیف دیتی ہے۔ یا اِس وجہ سے نام رکھنے کے وقت یہ مہینہ شدتِ گرما میں واقع ہوا تھا۔ اِسی لئے اِس کا نام رمضان رکھا گیا ! “۔ اس سال بھی پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ پوری عقیدت و احترام سے منائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو، ثواب دارین عطا کریں، آمین !۔
” دورِ علاﺅ الدّین خلجی!“
متحدہ ہندوستان کے نامور مسلمان بادشاہ علاﺅالدّین خلجی نے ضروریات زندگی کی قیمتیں مقرر کی تھیں۔ یہاں تک کہ روٹی کی قیمت بھی (اس کے وزن کے مطابق ) مقرر کردِی تھی۔ اشیائے ضروریہ کی مقررہ قیمتوں سے زیادہ وصول کرنے والے تاجروں اور دکانداروں کو سخت سزائیں دِی جاتی تھیں۔ اس کے بعد بھی بادشاہوں کے دَور میں ( خاص طور پر مغل بادشاہوں کے دَور میں ) غریب ، غرباءکے لئے ہر شہر اور گاﺅں میں ، سرکاری خرچ پرکھچڑ ی کی دیگیں پکائی جاتی تھیں جہاں سے ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق کھچڑی وصول کرسکتا تھا۔ عاشق رسول صلی اللہ علیہ و سلّم، مصّور ِ پاکستان علاّمہ اقبال نے اپنے دَور کے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ....
” رگوں میں وہ لہو ، باقی نہیں ہے،
وہ دِل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے !
نماز و روزہ و قربانی و حج،
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے!“
” مفسرِ اقبالیات “ مولانا غلام رسول مہر نے اِس رباعی کی شرح یوں بیان کی ہے کہ ” اے مسلمان!۔ تیری رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ، جو تیرے بزرگوں کی رگوں میں دوڑ رہا تھا ، ان کا سا دِل اور ان کی سی آرزو بھی نظرنہیں آتی ، تو نماز بھی ادا کرتا ہے۔ روزے بھی رکھتا ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر قربانی بھی کرتا ہے اور حج کے لئے حرمین شریفین بھی جاتا ہے۔ یہ سب چیزیں بیشک موجود ہیں لیکن، تیری حالت بدل گئی، تیری پہلی شان باقی نہ رہی !“۔
” مصّور پاکستان / بانی پاکستان!“
معزز قارئین ! مَیں اکثر اپنے کالموں میں بیان کرتا ہوں کہ ” مصّور پاکستان علاّمہ اقبال جب وکالت کِیا کرتے تھے تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ کر ، باقی اپنے دوست وکلاءاور شاگردوں میں بانٹ دِیا کرتے تھے اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے جب گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالا تو اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم ” شہید ملّت“ لیاقت علی خان کے دَور تک تو درمیانی طبقہ اور غریب غرباء کے مسائل اتنے زیادہ نہیں تھے لیکن پھر ان کے لئے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ متحدہ ہندوستان میں شراب پر پابندی نہیں تھی۔ پاکستان میں بھی (کسی حد تک) کوئی پابندی نہیں ہے۔ متحدہ ہندوستان کے مسلمان استاد شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں ماہِ رمضان میں اپنی اور دوسرے مسلمانوں کی مصروفیات کو بیان کِیا ہے۔ استاد سالک کہتے ہیں کہ ....
دکّانِ مَے فروش پر، سالک پڑا رہا!
اچھا گزر گیا، رمضاں بادہ خوار کا!
.... O ....
حضرت امیر مینائی نے کہا تھا کہ ....
تیس دِن ، مَے پلائی، ساقی نے!
ایک روزہ مرا، قضا نہ ہوا!
.... O ....
حضرت داغ دہلوی نے کہا کہ ....
قسمت ہی میں ،زاہد کے ہیں ، دِن رات کے فاقے!
کیا پیر مغاں ، روزہ کشائی ، نہیں دیتا؟
.... O....
اگرچہ مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنے دَور کے مفلس مسلمانوں کا حال بیان کِیا تھا لیکن ، ان کا یہ شعر پاکستان کے مفلوک الحال مسلمانوں کے معاشی حالات پر بھی صادق آتا ہے۔ فرمایا کہ ....
جِس پاس ،روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو؟
روزے کو وہ نہ کھائے تو ،لاچار کیا کرے ؟
....O ....
معزز قارئین ! قائداعظم نے ” ایک فرد ،ایک ووٹ“ کی بنیاد پر پاکستان قائم کِیا تھااور ” نظریہ پاکستان“ میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ ”برصغیر میں ہندو بنیے (ساہوکار ) مسلمانوں کو لوٹ رہے ہیں “ لیکن، قائداعظم کے وصال کے بعد انکے پاکستان میں ”ہندو بنیوں “کی جگہ ”حاجی بلیک “ قسم کے بنیوں نے لے لی۔ پوری دنیا میں کرسمس کے موقع پر (مسلمانوں اور دوسرے غیر مسلموں کے تہواروں پر بھی) اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت سستی کردی جاتی ہیں اور کئی ملکوں میں تو دس ، دس ، پندرہ ، پندرہ سال بعد بھی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہیں بڑھتیں لیکن، ہمارے یہاں تو ہر حکمران کے دَور میں (خاص طور پر) ماہِ رمضان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بہت ہی زیادہ اضافہ کردِیا جاتا ہے۔ دِکھاوے کے لئے ”رمضان بازار “ بھی سجائے جاتے ہیں لیکن، وہاں بھی اشیائے ضروریہ کی چیزیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ نہ جانے کِس آسمانی مخلوق سے ؟ ہمارے پاکستان میں تو شاید اپنی آخرت سنوارنے اور خالق حقیقی کی خوشنودی کے لئے سحر و افطار کے لئے اشیائے خورونوش خریدنے والے روزہ داروں کا امتحان لِیا جاتا ہے ؟۔
” روٹی ، کپڑا اور مکان !“
معزز قارئین ! پاکستان کے پہلے منتخب صدر سکندر مرزا کی مارشل لائی کابینہ کے رکن اور پھر فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کی کابینہ میں شامل ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ءکو اپنی چیئرمین شپ میں ”پاکستان پیپلز پارٹی “ قائم کی تو، ” روٹی، کپڑا اور مکان “ کا نعرہ لگایا لیکن، وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے اور نہ ہی انکے بعد ان کی وزیراعظم بیٹی ،محترمہ بے نظیر بھٹو اور داماد صدر آصف زرداری۔ پھر ان حکمرانوں کو کیا کہا جائے کہ جنہوں نے اِس طرح کا کوئی وعدہ ہی نہیں کِیا تھا ؟ ہمارے پیارے پاکستان میں تو ہر دَور میں غریبوں کے لئے ”ایک ماہ روزے اور گیارہ ماہ فاقے“ کا نظام رہا۔ آج بھی وہی نظام قائم ہے۔ اِس پرمیرے دوست ” شاعرِ سیاست“ کہتے ہیں کہ ....
گیارہ مہینے ، بھوک پیاس سے ، رہتے ہیں ہَلکان!
پھر بھی ہلالِ رمضاں، بڑھاوے ،جذبہ ایمان!
....O....
یوں تو ارضِ پاک میں ، ہر نعمت ہے ،ماشائ اللہ!
لیکن ہماری انتڑّیاں، پڑھتی ہیں ، قل ھوَاللہ!
....O....
کریں تِلاوَت ، قاری ، ملاّ ، سورہ رحمن!
کیسے کریں ؟اَفطارو سَحر، ہم ،مِن شہرِ رمضان!
....O....