• news

اجتماعی سچ اور قومی مفاہمت کی ضرورت

پاکستان کیلئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی استحکام ہے۔ سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوگی ورنہ عوام دن بدن برباد ہوتی معیشت کی وجہ سے مختلف طرح کی مشکلات میں گھرتے چلے جائیں گے۔ سڑکوں پر دن دیہاڑے لوٹ مار ،معاشرتی عدم برداشت ، بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی نے ویسے ہی عوام کا جینا حرام کررکھا ہے اوپر سے ادویات کی قیمتوں میں اچانک دو سے تین گنا اضافے نے اکثریتی عوام کو ذہنی مریض بنادیا ہے۔
 لوگ پر امید تھے کہ ملک میں انتخابات کے نتیجے میں جلد ہی سیاسی استحکام جنم لے گا۔ اس کے بعد عوام کے منتخب نمائندے حکومت سازی کے عمل سے گزر کر سب سے پہلے اشیاءخود نوش سمیت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لاکر لوگوں کومایوسی کے دلدل سے نکالنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور پارلیمنٹ میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی روش کو ترک کرتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے تاک رکھ کر باہمی مصالحت سازی کی بنیادرکھیں گے تاکہ عوام کے روز مرہ مسائل کے فوری حل کی راہ تلاش کی جاسکے۔ لیکن بدقسمتی سے پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان تندوتیز جملوں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے الزام ترشیوں کا جو شور اٹھا اس نے عوام کے رہے سہے اوسان بھی خطا کردیے ہیں۔
پارلیمنٹ میں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے عوامی نمائندوں کے درمیان بدزبانی کی حدتک ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کا یہ طریقہ نئی نسل کیلئے حیران کن ہوسکتا ہے۔ ورنہ پاکستان کی ساری پارلیمانی تاریخ اس طرح کی صورت حال سے بھری پڑی ہے۔یہی وجہ ہے کہ برسرِ اقتدارجماعت یا اتحاد کیلئے ماضی میں جمہوری اصول وقائدے کے مطابق اپنے اقتدار کی مدت کو پورا کرناانتہائی مشکل مرحلہ رہا ہے۔ 
ماضی میں اقتدار کی رسہ کشی کا نتیجہ ایک طرف ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا تو دوسری طرف عوام کیلئے مشکلات ہرگزرتے دور کے ساتھ ہی بڑھتی چلی گئیں۔ یہی ختم نہ ہونے والا سیاسی عدم استحکام ہی ہے جس نے پاکستان کو پہلے دولخت کیا اور پھرباقی ماندہ پاکستان کو پورے خطے میں معاشی اور معاشرتی طورپر ترقی کی دوڑ میں ان ممالک سے بھی پیچھے دھکیل دیا جو 1990ءکے آغاز تک پاکستان سے کہیں پیچھے تھے۔ ملک پر بیرونی مالیاتی اداروں کا قرض بڑھتا چلاگیا۔ بیرونی قرضہ ملک میں غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ ہوا تو اس کا نتیجہ مزید قرض کے بوجھ کی صورت سامنے آیا کیونکہ اس کے بغیر لیے گئے قرض اور اس پر سود کی ادائیگی ممکن نہ تھی۔
ایک طرف غیر پیداواری منصوبے پاکستان کی کرنسی کو بے وقعت کرنے کا سبب بنے توساتھ ہی بجلی کی کمی کو دور کرنے کیلئے نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ بجلی کی خریداری کیلئے ایسے معاہدے عمل میں لائے گئے جو پاکستان کی معیشت پر بوجھ کے حوالے سے آخری تنکا ثابت ہورہے ہیں۔ یہ معاہدے اس قدر خوفناک تھے کہ ماضی کے ان سود خوروں کو بھی مات دے دی جو ہزار روپے قرض دے کر 20 ہزار وصول کرلینے کے باوجود ہزار روپے کا قرض اس وقت تک برقرار رکھتے جب تک قرض لینے والے کا سارا مال و اسباب ان کے قبضے میں نہ چلا جاتا۔
 اب حالت یہ ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے باوجود پاکستان نے نومبر 2024 ءتک 2.7 ٹریلین روپے ''سرکولر ڈیبٹ'' کی مد میں نجی پاور کمپنیوں کو ادا کرنے ہیں جبکہ گیس کمپنیوں کوالگ سے ''سرکولرڈیبٹ'' کے تین ٹریلین روپے کی ادائیگی واجب الادا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ پاکستان کے لیے آنے والے برسوں میں بجلی اور گیس کے حوالے سے سرکولر ڈیبٹ کی ادائیگی گلے میں پھنسنے والی ایسی ہڈی بن جائے گی جسے نہ تو اگلا جاسکے گا، نہ نگلا۔
 آثار بتا رہے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب عوام الناس کے لیے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنا ممکن نہیں رہیگا۔ جس کا لازمی اثر پاکستان کے دفاع پر بھی پڑے گا۔ اب اگر پاکستان کے دفاعی بجٹ پر نظر ڈالیں تو یہ 1.80 ٹریلین روپے ہے جس کا انتہائی تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ فوج اور پاکستان کے دفاع پر اٹھنے والے اخراجات کو ملک میں مہنگائی اور معاشی ناہمواری کا سبب قرار دے کر بہت سے طبقات پاک فوج کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور یہاں تک پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ملک کے کل بجٹ کا 80 فیصد فوج لے جاتی ہے۔ حیران کن طور پر اس طرح کی الزام تراشی میں ناخواندہ نہیں بلکہ تعلیم یافتہ افراد پیش پیش ہیں جبکہ نجی پاور کمپنیوں کے مالکان کو سرکولر ڈیبٹ کے نام پر دفاعی بجٹ سے کئی گنا زیادہ پیسوں کی ادائیگی کا نہ کوئی دانشور ذکر کرتا ہے نہ ہی اس کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا مسائل اور آئی ایم ایف کی طرف سے عوام پر 18فیصد مزید GST لگانے کی شرط کے بعد کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو اس کا حل اب ہمارے حکمرانوں کوہی نکالنا ہے جوایک دوسرے کو نیچا دکھانے' ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے' طعنہ زنی کرنے یا مینڈیٹ چور' گھڑی چور اور مخالفین کو سڑکوں پر گھسیٹنے جیسے جملوں کی ادائیگی سے ممکن نہیں ہوگا۔ آنے والے مشکل وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جرات اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے تو اپنی ان غلطیوں کا اعتراف کریں جو ماضی میں غلط فیصلوں کی صورت ان سے سرزد ہوئیں۔ اس اجتماعی سچ کے بعد ہی قومی سطح پر مفاہمت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اور یہی قومی مفاہمت جب اجتماعی سچ کے ساتھ قوم کے سامنے آئے گی تو ہمارے عوامی نمائندوں کے لئے مستقبل میں معاشی فیصلے کرنا آسان ہو جائے گااور یقینی طور پر عوام اپنے نمائندوں کے اخلاص پر اعتماد کرتے ہوئے ملک کی سلامتی و بقاءکی خاطر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار نظر آئیں گے۔

خالد بیگ

خالد بیگ 

ای پیپر-دی نیشن