• news

بھارت:تیرہ ہزارمدارس بند کرنے کی تیاری 

بھارتی ریاست اترپردیش میں حکومت نے13 ہزار  مدارس کو بند کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے دینی مدارس بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ ایس آئی ٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مدارس غیر منظور شدہ ہیں۔ مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مدارس یا دیگر ادارے بہت سے شدت پسند ہندوؤں کے سینے پر مونگ دلتے ہیں۔ اگر یہ منظور شدہ ہوتے تو کیا پھر بھی قابل قبول ہوتے؟ اگر یہ منظور شدہ نہیں ہیں تو ان کو آسانی سے قانونی شکل دی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے مدارس غیر رجسٹرڈ تھے جن کو رجسٹریشن کروانے کا موقع دیا گیا اور آج وہ قانونی حیثیت اختیار کر چکے اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت کو ہو سکتا ہے پاکستان سے یہ مثال لینے میں پس و پیش ہو، ویسے نیت صاف ہو تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تاہم وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ایسے اقدامات کو پیش نظر رکھ سکتا ہے۔ مدارس بند کرنے جیسے فیصلے، مساجد کی جگہ مندر بنا دیے جانا، کورونا کے دنوں میں مسلمانوں کے ہسپتالوں میں علاج کرانے پر پابندی، یہ سب کچھ تعصب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، ان کے ساتھ اگر یہ سلوک ہوتا ہے تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سکھوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوتا ہوگا؟ اسی وجہ سے سب اقلیتیں مل کر سراپا احتجاج بنی رہتی ہیں۔ بھارتی ریاست کے سیکولر ہونے کے بڑے بڑے دعوے ہوتے رہے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی سرکار اس کو اب شدت پسند ہندو ریاست بنا چکی ہے۔ مدارس بند کرنے کے فیصلہ بھی ہندو توا مائنڈ سیٹ کا عکاس ہے۔ اس سے کمیونٹیز کے مابین نفرتوں میں اضافے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا اور یہ نفرتیں شدت پسندی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی بنا پر اقلیتوں کو ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں جو کچھ اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے خلاف فوری طور پر اقوام متحدہ، اس کے ذمہ دار اداروں اور بھارت کے ہر اقدام کی حمایت پرآمادہ اس کے دوست امریکا کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن