پیر‘ 29 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 11 مارچ 2024ء
رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج پشاور میں ہو گا
خدا کرے رمضان المبارک کا چاند دیکھنے والی اس مرکزی کمیٹی کا اجلاس اس ماہ مبارک کی طرح بابرکت ثابت ہو‘ چاند نظر آنے پر اتفاق رائے سے فیصلہ ہو۔ اب خدا جانے پشاور کے اس اجلاس میں ہمار ے ہر دلعزیز مولانا پوپلزئی موجود ہوں گے یا نہیں۔ اگر ہیں تو ستے خیراں ہو گی‘ اگر نہیں تو پھر ہم پیشگی کہہ دیتے ہیں معاملہ پھر کہیں گڑ بڑ نہ ہو جائے۔ اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ انہیں بھی ڈھونڈ کر لایا جائے اور کمیٹی میں شامل رکھا جائے۔ ورنہ اگر پھر انہوں نے کہیں اپنا علیحدہ چن چڑھا لیا تو کیا ہو گا۔ ہم ہر سال یہی دیکھ رہے ہیں کہ چاند کے مسئلے پر تنازعہ پیدا ہوتا ہے اور اس میں ایک اہم کردار ہمارے مولانا پوپلزئی کا بھی ہوتا ہے۔ سچ کہیں تو وہ ہمیں چن چڑھانے کے ماہر لگتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی کسی بھی نئے چاند کی رویت کا معاملہ پھر اٹھا سکتی ہے۔ وہ ہوں تو بے شک چاند نظر نہ بھی آئے مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ چاند جہاں کا بھی ہو‘ ایک ہی نظر آئے گا اورنہ اختلاف پیدا ہو گا،۔ہاں اگر صوبائی رویت ہلال کمیٹیاں اپنی آئی پر آ جائیں تو پھر پشاور کے مرکزی اجلاس کے سامنے پھر ایک بار اختلافات کا پہاڑ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس لیے پاکستانی قوم دعا گو ہے کہ اس بار علما کرام میں اتفاق برقرار رہے اور ملک بھر میں ایک ہی روز رمضان کا آغاز ہو اور ایک ہی روز عیدالفطر منائی جائے۔ اس طرح کم از کم تراویح کے آغاز اور اختتام کا بھی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہو گا اور ایک ملک میں 3 عیدیں منانے کا رواج بھی ختم ہو جائے گا۔ ورنہ وہی ایک عید افغان مہاجرین مناتے ہیں‘ ایک مولانا پوپلزئی والے اور ایک عام پاکستانی جو رویت ہلال کی پیروی کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ تماشہ آئندہ بھی چلتا رہے گا یا اب ختم ہو جائے گا اور لوگ اطمینان سے رمضان اور عید منائیں گے۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے کابینہ میں بھائی اور بھتیجے وزیر بن گئے
کوئی ایک آدھ ہوتا تو پرواہ نہیں تھی یہاں تو پی ٹی آئی کے مرکزی عہدیداروں حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ کے بھائی تک کو وزارت سے محروم نہیں رکھا گیا۔ یوں برادران کابینہ وجود میں آئی سابق وفاقی وزیر کے بھائی نہ ملے تو ان کے بھتیجے کو وزارت کی خلعت عطا کی گئی۔ اب جو ذرا ماٹھے عہدیدار تھے ان کے رشتہ داروں کو مشیر بنا کر ان کی داد رسی کی گئی۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ کہاں گئے میرٹ کے دعوے۔ اقربا پروری کے خاتمے کی باتیں یہاں تو وہی کچھ ہو رہا ہے جس کے خلاف پی ٹی آئی کے رہنما دل کھول کر بولتے تھے۔ اب اپنی باری آئی تو بقول شاعر
پوچھو تو انہیں عمل کے لہجے نہیں آتے
باتوں سے کریں قصر پہ جو قصر کی تعمیر
اب چونکہ خیبر پی کے میں ان کی بھاری اکثریت ہے۔ انہیں کسی بھی اپنے ممبران یا اپوزیشن کی طرف سے احتجاج کا لعن طعن کا خطرہ بھی نہیں ہے تو اس لیے وہاں ہر طرف شانتی ہی شانتی نظر آ رہی ہے۔ بس ذرا تیمور جھگڑا دل پسند وزارت نہ ملنے پر برہم ہیں۔ ابھی تو مزید وزیروں اور مشیروں کی آمد بھی متوقع ہے۔ پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ یہ تو شکر ہے ابھی سنی اتحاد کی طرف سے کوئی صدا بلند نہیں ہوئی کہ دے جا سخیا راہِ خدا۔ آخر ان کے دل میں بھی تو وزیر اور مشیر بننے کی خواہش مچلتی ہوں گی۔ ورنہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں کہ ہمیں استعمال کر کے ہمارا نام لے کر ہمیں ہی ہری جھنڈی دکھائی گئی ہے۔ ایک آدھ تو ان کا بندہ بھی ایڈجسٹ کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ انہیں کسی اور شکل میں ان کی دوستی کا صلہ دینا ہو گا تاکہ وہ کوئی مسئلہ پیدا نہ کریں۔ اب کہیں پی ٹی آئی والوں کو ڈیزل، پٹرول، سیمنٹ ، تجارت کے پرمٹ نہ جاری کرنے پڑیں ۔ہو سکتا ہے سنی اتحاد کونسل والے مدارس کی حالت بہتر بنانے مساجد کی تعمیر و مرمت کی مد میں دست تعاون طلب کریں یوں خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کو ثواب کمانے کے بے شمار مواقع ملیں گے۔
٭٭٭٭٭
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بھی بھٹو کو سرکاری طور پر شہید اور ہیرو قرار دینے کی حمایت کی
کہتے ہیں لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔ کل تک جماعت اسلامی والے بھٹو کی پھانسی کو نجانے مکافات عمل، ظلم کا بدلہ اور تکبر کا انجام آمریت کا خاتمہ کہہ کر اس کی کیا کیا تاویلیں کرتے پھرتے تھے اور جمعیت کے نعروں میں بھٹو ازم کا مطلب کیا والے نعرے کی ایسی ایسی تشریح کی جاتی تھی جسے عرف عام میں پیروڈی کہتے ہیں کہ لکھنے کی تاب نہیں۔ خود بھٹو دور میں جماعت کے رہنمائوں کو جس طرح الیکشن سے دور رکھنا کہہ لیں یا حصہ لینے کی پاداش میں جن شرمناک مظالم سے گزرنا پڑا۔ اب لگتا ہے وہ سب قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیا گیا ہے یا نجانے کیوں
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
کے مصداق فراموش کر دیا گیا ہے۔ حال ہی میں کراچی کے بلدیاتی الیکشن اور میئر کے الیکشن میں جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ پھر صوبائی و قومی اسمبلی کے الیکشن میں جماعت والے سندھ میں پیپلز پارٹی پر نفرین بھیجتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان حالات میں شہید اور ہیرو قرار دینے کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ اب جماعت نے دل وسیع کر لیا ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کا ماجرا بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ اور پیپلز پارٹی والے اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو لٹیرا قرار دیتے ہیں۔ کراچی حیدر آباد ‘میرپور خاص پر اپنا اپنا جھنڈا لہران کے لیے کشتوں کے پشتے لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ وہ بھی بھٹو کو شہید اور ہیرو قرار دینے کی حمایت کرتے ہیں تو یہ واقعی ایک بڑا چمتکار ہے۔ بہرحال اگر یہ اتفاق رائے حسن ظن سے ہے تو یہ ہماری سیاست میں ایک اچھی شروعات ہو گی اور اس کے اچھے اور مثبت اثرات رونما ہوں گے۔ اس طرح کی وسعت قلبی سے نفرتوں میں کدورتوں میں کمی آتی ہے جس کی اس وقت ہمارے ملک کی سیاست میں ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
بھارت کے کھرب پتی صنعتکار مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی میں تینوں خانز کا رقص
یہ ہوتا ہے پیسے کا کمال یا اسی لیے کہتے ہیں بندر بھی ناچتا ہے قلندر کے سامنے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے لاہور قلندر والے اس پی ایس ایل میں خود بھی ناچنا بھول گئے ان کے سامنے بندر کیا ناچتا۔ مگر اننت امبانی کی شادی پر اس کے باپ نے اربوں روپے حقیقت میں لٹائے اس شادی میں جہاں بڑے بڑے کروڑ پتی اداکار سٹیج پر عوام کے ’’منورنجن‘‘ کے لیے ناچتے رہے ان میں سلمان خان، عامر خان اور شاہ رخ خان جیسے فلمی ہیروز بھی تھے اور رنویر سنگھ اور دیپکا جیسے جوڑے بھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ ان کے گھر کے باہر روز جمع ہوتے ہیں۔ ان کی فلموں کا ہر شو ہائوس فل ہوتا ہے۔ مگر وہ خود اننت امبانی کی شادی میں نوٹنکی والوں کی طرح ٹھمکے لگاتے نظر آئے اور اپنی حیثیت بھول گئے۔ اس سلسلے میں اداکارہ کنگنا راوت نے تھوڑی سے غیرت دکھائی اور کہا کہ اگر مکیش امبانی 5 ارب روپے بھی دیتا تو میں تب بھی نہیں ناچتی۔ بہرحال اس شادی میں صرف کھانے کی سینکڑوں اقسام پر اربوں کا خرچہ آیا۔ یوں یہ کہانیوں والے بادشاہوں کی شادی کی مثال بن گئی۔ ایک اچھی بات جو ہم سب کو سیکھنے کے لیے ہے وہ یہ ہے کہ اس شادی میں معمولی کم حیثیت کے رشتہ داروں دوستوں اور احباب نے کام والوں نے بھی دولہا دلہن کو سر پر ہاتھ پھر کر آشیرواد دیا اور سو روپے کی سلامی بھی دی اور پھول دئیے جو اس ارب پتی جوڑے نے نہایت بڑے پن کے ساتھ قبول کیا اور سر جھکا کر دعائیں لیں۔ ہمارے ہاں ایسے رشتہ داروں کو دور ہی سے ٹاٹا بائی بائی کیا جاتا ہے گلے ملنا ہاتھ ملانا پیار لینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یوں جو ذات پات، رتبے کی بیماری ہندوئوں میں تھی ہم میں عود کر آتی ہے اور ہمارے صلہ رحمی اور شفقت کا ہنر انہوں نے سیکھ لیا ہے۔
٭٭٭٭٭