اتحادیوں کے تعاون سے آصف علی زرداری دوسری بار صدر منتخب
آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے چودھویں صدرِ مملکت منتخب ہوگئے ہیں۔ ملک کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی)، ایوان بالا (سینیٹ) اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ صدارتی انتخاب میں حکومتی اتحاد کی جانب سے آصف زرداری اور حزبِ اختلاف کے محمود خان اچکزئی مدمقابل تھے۔ آصف زرداری نے پارلیمنٹ سے 255 ووٹ لیے جبکہ سنی اتحادکونسل کے محمود خان اچکزئی 119 ووٹ حاصل کر سکے۔ پارلیمنٹ میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے ایک ووٹ مسترد ہوا۔ یوں مجموعی طور پر قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے آصف زرداری 410.777 الیکٹورل ووٹ لے کر صدرِ پاکستان منتخب ہوئے جبکہ محمود خان اچکزئی نے 180.34 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکے۔ آصف زرداری 2008ء سے 2013ء تک صدارتی منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے 62 میں سے47 ارکان نے صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ کاسٹ کیے جبکہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے 12 ارکان، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، جماعت اسلامی، حق دو تحریک کے ایک ایک رکن نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔ بلوچستان اسمبلی سے آصف زرداری نے47 ووٹ حاصل کیے جبکہ محمودخان اچکزئی نے کوئی ووٹ حاصل نہیں کیا۔ پنجاب اسمبلی میں 352 ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے 6 مسترد ہوئے۔ پنجاب اسمبلی میں آصف زرداری کو 246 ووٹ اور محمود خان اچکزئی کو 100 ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی میں 160 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا جس میں سے سابق صدر آصف زرداری کو 151 ووٹ ملے جبکہ مدمقابل محمود خان اچکزئی 9 ووٹ حاصل کر سکے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں جے یو آئی کے 9 اراکین اسمبلی نے صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ کے پی اسمبلی کے 118 میں سے 109 ارکان اسمبلی نے ووٹ کاسٹ کیے جن میں سے ایک ووٹ مسترد ہوا۔
صدارتی انتخاب سے پہلے محمود خان اچکزئی نے الیکشن کمیشن کو درخواست دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک الیکٹورل کالج مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک صدارتی الیکشن ملتوی کرائے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے اس درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو منعقد ہو چکے۔ آئین کے مطابق 30 دن میں صدارتی انتخاب لازم تھا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ محمود خان اچکزئی سمیت دیگر امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا چکے جن کی جانچ پڑتال بھی ہو چکی۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محمود خان اچکزئی جانچ پڑتال کے وقت ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پیش ہوئے تو انھوں نے الیکٹورل کالج کے مکمل نہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس وقت الیکٹورل کالج مکمل ہے، اسی طریقہ پر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا چناؤ ہو چکا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ صدارتی انتخاب میں حزبِ اختلاف کے امیدوار محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ صدارتی انتخاب بڑے اچھے ماحول میں ہوا۔ پہلی بار صدارتی الیکشن میں نہ کوئی ووٹ بیچا گیا نہ خریدا گیا۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ صدارتی امیدوار نامزد کرنے اور ساتھ دینے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا شکر گزار ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں سب کچھ خریدا جاسکتا ہے، لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں، میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس سائیڈ پر ہوں، ملک میں نئے دور کا آغاز ہے کہ خرید وفروخت نہیں ہوئی، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں نے اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے ساتھیوں نے کہا کہ دل کہتا ہے کہ ووٹ آپ کو دیں، اچھی روایت پڑ چکی ہے، باقی باتیں پارلیمان میں کریں گے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں آصف زرداری کو مبارک باد دینے گیا تھا مگر وہ موجود نہیں تھے۔
دوسری جانب، سنی اتحاد کونسل نے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی نامزدگی کے لیے درخواست سپیکر آفس میں جمع کرا دی ہے۔ عمر ایوب کی بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی کی باضابطہ درخواست پی ٹی آئی رہنماؤں عامر ڈوگر، علی محمد خان اور دیگر نے سپیکر آفس میں جمع کرائی۔ علاوہ ازیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے بلے کا انتخابی نشان واپس مانگ لیا ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی انتخابات کا ریکارڈ جمع کرادیا۔ تحریک انصاف کے فیڈرل الیکشن کمشنر نے انٹرا پارٹی انتخابات کا ریکارڈ جمع کرایا، پی ٹی آئی نے فارم 65 پر مشتمل پارٹی سربراہ کا سرٹیفکیٹ بھی جمع کرایا۔ تحریک انصاف کی دستاویز میں مرکزی و صوبائی قیادت کے انتخاب کے نتائج بھی شامل ہیں۔
صدارتی انتخاب کے انعقاد سے ملک کے جمہوری سفر کا ایک اہم مرحلہ طے ہوگیا ہے۔ اب قومی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام سے کیے گئے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے منشور کے تحت عوامی فلاح و بہبود کے کام کریں اور ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے وہ سب پالیسیاں اختیار کریں جو ضروری ہیں۔ اس وقت ملک کسی بھی قسم کی سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا ایک دوسرے پر الزام تراشی کو چھوڑ کر ہر جماعت اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ اچھی بات یہ ہے کہ تمام بڑی جماعتوں کو ملک کے مختلف حصوں میں حکومت کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اب عوام ان حکومتوں کی کارکردگی سے اندازہ لگا سکیں گے کہ کس سیاسی جماعت نے اپنے منشور اور عوام سے کیے گئے وعدوں پر کتنا عمل کیا۔ اگر اس مرحلے پر سیاسی جماعتیں ملک اور عوام کے لیے کچھ نہ کرسکیں تو اس سے جمہوریت اور جمہوری ادارے کمزور ہوں گے جس کی تمام تر ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر ہوگی۔