محمود شام کی تازہ کتاب۔۔۔’’روبرو‘‘
ایک چینی کہاوت ہے کہ جو آدمی دس کتابیں پڑھ لیتا ہے وہ دس ہزار میل کا سفر طے کر لیتا ہے۔ سفر مشاہدہ کی ہی ایک پرت کا نام ہے۔ دس کتابیں کوئی بھی سی نہیں ہونگی ورنہ بہت سی کتابیں خریدنے کے ساتھ پڑھنے کے پچھتاوے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ کتابوں کا تعمیری اور معیاری ہونا لازم ہے۔ کتاب، کتاب میں فرق ہوتا ہے اور پھر کتاب کے صفحہ، صفحہ میں فرق بھی۔ عظیم پنجابی شاعر وراث علی شاہ لکھتے ہیں: ’’رخ یار دا صفحہ قرآن دا اے ، خوشخط لکھیا صادقین قاضی‘‘۔ یعنی قرآن پاک کے صفحہ پر رخ یار کے خطوط کی طرح کی سی دلآویزی، حسن، سچائی اور گہرائی موجود ہے۔ کیوں نہ ہو؟ احسن تقویم والا فنکار بھی یہی تو ہے۔ کالم نگار کے سامنے محمود شام کی تصنیف ’روبرو‘‘ پڑی ہے۔ کتاب کے سرورق پر لکھا ہے۔ ’’محمود شام کے سیاسی رہنماؤں سے پچاس سال کے دوران لئے انٹرویوز کا انتخاب‘‘۔ 632صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 53انٹرویوز ہیں۔ پچاس برس کی بجائے ان انٹرویوز کا دورانیہ 1969سے 1977 ہے۔ اس طرح گمان گزرتا ہے کہ انتخاب کی اور بھی جلدیں ابھی زیر اشاعت ہونگی۔ اس میں پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں جانب کے سیاستدانوں کے انٹرویز محض رسمی انٹرویوز نہیں، ان میں ہماری ساری تاریخ اور شخصیتوں کا کچا چٹھا موجود ہے۔ ان میں سیاستدان چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان انٹرویوز میں کچھ شخصیات کے ایک سے زائد انٹرویوز بھی موجود ہیں، جیسے ذو الفقار علی بھٹو کے چھ۔ ممتاز علی بھٹو کے تین۔ بیگم نصرت بھٹو، کوثر نیازی، غلام مصطفی جتوئی اور مولانا بھاشانی کے مختلف اوقات میں لئے گئے دو دو انٹرویوز ہیں۔ ان سیاستدانوں کے جمگھٹے میں ایک ادیبہ بیگم رضیہ خاں بھی شامل ہیں۔ یہ مشرقی پاکستان کی مشہور افسانہ نویس ہیں۔ یہ تاریخ پاکستان کی معروف شخصیت مولوی تمیز الدین کی بیٹی اور تحریک پاکستان کے ممتاز لیڈر نور الامین کی بہو ہیں۔ محمود شام نے اپنے پچیس صفحوں پر مشتمل پیش لفظ میں اپنی ’’پیاس۔ تیس برس کی‘‘بھی بیان کی ہے۔ ان کے مطابق ’’آج سے اکتالیس برس پہلے جب میں نے میٹرک کر کے گورنمنٹ کالج جھنگ میں انٹر میں داخلہ لیا۔ میرے ذہن میں سوال اس وقت بھی یہی تھا کہ ہم پاکستانی قوم کب بنیں گے؟ اس کا جواب ایک صبح جنرل ایوب خاں کے مارشل لاء کی صورت میں ملا۔ سوچا، ممکن ہے اب ہم واقعی پاکستانی قوم بن جائیں‘‘۔ انہوں نے اپنے پیش لفظ میں قیام پاکستان سے 1999ء تک کی ہماری سیاسی تاریخ لکھ دی ہے۔
انکی یہ پیاس تیس برس سے بڑھ کر اب 55برس کی ہو گئی ہے۔ وہ 1969ء میں 29برس کی عمر میں ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ کی طرف سے سیاسی قائدین کے انٹرویوز کرنے نکلے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان وقتو ں میں قائدین کی آنکھوں میں ندامت کا احساس زیاں نظر آتا تھا۔ حالانکہ وہ اس وقت پھر بھی ذمہ داری سے جدو جہد کر رہے تھے۔ اب کسی کی آنکھ میں کوئی پشیمانی نہیں۔ پارٹیاں لمیٹڈخاندانی کمپنیاں بن چکی ہیں۔ شہزادے اور شہزادیاں میدان سیاست میں اتاری جا رہی ہیں۔پارٹیوں میں خوشامدی، وزارت عظمیٰ اپنے پارٹی مالکان یا ان کے بیٹے بیٹیوں کو سونپ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے دو تین گھروں کے سواکہیں اور وزیر اعظم اْگتے ہی نہیں۔ اب تو عسکری فارم ہاؤس میں گملوں میں لگے وزیر اعظموں کی باری صرف نگران دور میں ہی آتی ہے۔
پہلا انٹر ویو مولانا بھاشانی کا ہے۔ انکی بودو باش اور سراپا پڑھنے والوں کو حیرت زدہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ محمود شام لکھتے ہیں: ’’وہ ہمیں ساتھ لے کر اپنے گھر کی طرف چل دیئے۔ پگڈنڈی پر سے ہوتے ہوئے ہم ایک جھونپڑی نما مکان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ آس پاس دیہاتی اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ سیاستدانوں کے ساتھ جو حاشیہ بردار نظر آتے ہیں، میں ان کی تلاش مین ہوں لیکن میری یہ کوشش ناکام رہی ہے۔ اس جھونپڑی کے باہر یہی لکڑی کی کرسی اور بنچ کھڑا ہے۔ ہم اس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ مولانا ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد لوٹتے ہیں۔ گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔ چار پانچ جملوں کے بعد بات کٹ جاتی ہے۔ چٹائی کی دیوار پر دستک کی آواز سنائی دیتی ہے (یہاں چٹائی کی دیوار کا لفظ قابل غور ہے)۔ مولانااٹھ کر اندر جاتے ہیں اور لوٹتے میں ہاتھ میں ٹرے اٹھائے ہوتے ہیں، جس پر کپڑا پڑا ہوا ہے۔کہنے لگے۔ یہ بی بی لوگ نے بنایا ہے۔ رمضان میں مہمانداری ہو نہیں سکتی۔ آپ لوگ چاہے اسے ساتھ لے جائیں، رستے میں روزہ کھول لیجئے گا۔پہلے مولانا صرف ایک خالی واسکٹ اور چوخانہ تہمد پہنے تھے۔سر پر ٹوپی بھی نہیں تھی۔ نماز پڑھ کر لوٹے تو کھدر کے سفید کرتے اور بید کی جالی دار ٹوپی کا اضافہ ہوچکا تھا‘‘۔ محمود شام کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ اکثر حلقوں اور محفلوں میں سیاست اور سیاستدانوں کا ذکر انتہائی حقارت اور ناپسندیدگی سے کیا جاتا ہے۔ گھریلو بات چیت میں بھی کرپشن اور سیاست ہم معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ پھر کتنے دکھ کی بات ہے کہ ملک چلانے کا عمل سیاست جس سے کروڑوں افراد کی تقدیر وابستہ ہوتی ہے۔ جس پر کروڑوں زندگیوں کا دار و مدار ہوتا ہے ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔ ایک اور افسوسناک رحجان یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ قومی سیاسی رہنماؤں نے اخبارات کا مطالعہ بھی تقریباً ترک کر دیا ہے۔ صرف شام کے اردو انگریزی اخبار پڑھے جاتے ہیں اوران کی بھی صرف ’’سرخیاں‘‘۔ کالم کا پیٹ ان لفظوں سے ہی بھر گیا ہے۔ کتاب میں سے دو شخصیتوں نے کالم نگار کو بہت ہانٹ کیا ہے۔ پہلی شخصیت بلوچستان سے عبدالصمد اچکزئی ہیں اور دوسری ادیبہ رضیہ خاں۔ ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کالم میں جگہ ساتھ نہیں دے رہی۔ یار زندہ صحبت باقی۔
پس نوشت: معروف نوجوان شاعر جناب ندیم انور نے اپنے ایک تازہ قطعہ میں مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور عام آدمی کے جذبات کی خوب عکاسی کی ہے:
جان ہے تو جہان باقی ہے
مکین باقی مکان باقی ہے
حاکم وقت اور تیر چلا
ابھی جاں میں جان باقی ہے
اب دیکھئے یہ دم توڑتی زندگی کی رمق کب تک رہتی ہے؟