قومی ادارہ برائے امراض قلب کی طرز پر فالج علاج کیلئے اسپتال کا قیام ناگزیر
کراچی (نیوز رپورٹر) پاکستان میں روزانہ ایک ہزار افراد فالج کے حملے کا شکار ہو رہے ہیں جن میں سے تقریباً چار سو افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ دو سو سے تین سو افراد روزانہ مستقل معذوری کا شکار ہو رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی جیسے شہر میں قومی ادارہ برائے امراض قلب کی طرز پر فالج کے علاج کا ہسپتال قائم کیا جائے، ملک کے تمام بڑے اور ضلعی اسپتالوں میں فالج کے علاج کے مراکز قائم کیے جائیں اور اور ملیریا ٹی بی اور ایچ آئی وی ایڈز کی طرز پر پر قومی اور صوبائی سطح پر فالج کے کے مرض سے بچاؤ کے پروگرامات شروع کیے جائیں۔ان خیالات کا اظہار پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر روی شنکر، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے سابق صدر پروفیسر محمد واسع، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے رکن ڈاکٹر بشیر سومرو اور پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے نائب صدر ڈاکٹر عبد المالک نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے اس موقع پر بتایا کہ کہ پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے 12سو افراد فالج سے متاثر ہو رہے ہیں, 15 سال پہلے یہ تعداد محض ڈھائی سو تھی، پاکستان میں روزانہ فالج کے نتیجے میں 400 افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ، کورونا وائرس کے بعد مارچ سے اب تک فالج سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے ، صوبائی حکومتوں کو فالج کی بیماری پر قابو پانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ضلعی اسپتالوں میں فالج یونٹس قائم کرنے ہوں گے اس حوالے سے ہم حکومت اور ہیومن ریسورس اور عملے کی تربیت دینے کے لیے تیار ہیں، موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے فالج کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کر رہے ہیں۔پروفیسر محمد واسع نے کہا کہ جیسے جیسے ملک میں کرپشن بڑھ رہی ہے ویسے ہی بلکہ اس سے بھی کہیں تیزی سے فالج کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے ، پاکستان میں اتنا نقصان دوسری بیماریاں نہیں کر رہیں جتنا فالج کا مرض کر رہا ہے، 15 سال پہلے سروے کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے ڈھائی سو افراد فالج کے حملے کا شکار ہو رہے تھے اور اب نئے سروے کے مطابق یہ تعداد 12 سو تک جا پہہنچی ہے ، اسی طرح پاکستان میں فالج کی بیماری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیوں کے نتیجے میں 400 افراد روزانہ مر جاتے ہیں اور جو 600 افراد بچ جاتے ہیں ان میں سے بھی ایک چوتھائی زندگی بھر کے لیے معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔