• news

قومی اسمبلی : انتخابی اصلاحات بل پر اپوزیشن‘ حکومتی اتحادیوں کے تحفظات‘ مزید ترامیم کی سفارش‘ کورم ٹوٹنے پر اجلاس کی کارروائی روکنا پڑی

اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی میں انتخابات بل 2017ءپر بحث کے دوران اپوزیشن کی جماعتوں کی طرف سے بل پر اعتراضات اٹھا دیئے گئے ہیں جبکہ حکومتی اتحادیوں نے بھی اعتراضات اٹھائے ہیں۔ بحث شروع کرانے کے لئے ایوان میں معمول کا ایجنڈا معطل کر دیا گیا، سپیکر قومی اسمبلی کو کورم کی نشاندہی پر اجلاس کی کارروائی روکنا پڑی، تمام جماعتوں نے الیکشن کمشن آف پاکستان کی مالی وانتظامی خود مختاری کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں صاف وشفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے موثر قانون سازی اشد ضروری ہے۔ وزیر قانون وانصاف زاہد حامد نے ایوان میں اس حوالے سے تحریک پیش کی جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی انجینئرحامد الحق نے کورم کی نشاندہی کر دی گنتی کرانے پر کورم پورا نہ نکلا جس پر سپیکر نے اجلاس کی کارروائی کورم پورا ہونے تک روک دی آدھے گھنٹے کے بعد جب دوبارہ گنتی کرائی گئی تو کورم پورا تھا جس کے بعد بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کا عمل 3 سال پہلے شروع ہوا تھا۔ 2013ءکے انتخابات پر کسی کو اعتماد نہیں تھا، اسے کوئی آراوزکے الیکشن اور کوئی دھاندلی الیکشن کہتا تھا پھر دھرنے ہوئے، سپریم کورٹ نے الیکشن 2013ءپرکمشن بنایا جس کے بعد پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ایسا دوبارہ نہیں ہونے دینا اور تمام جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں تاکہ ایک ایسا نظام لایا جائے جس سے ہمیشہ کے لئے الیکشن میں فراڈ اور دھاندلی سے جان چھڑائی جاسکے۔ اس کے بعد جو کمیٹی بنی انتخابی عمل اور قانون کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ قانون کبھی اسمبلی میں نہیں آئے گا ، تمام جماعتوں نے حصہ ڈالا جو بل آیا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو بل آیا ہے کیا یہ 2018ءکے انتخابات پر ہر کسی کو اعتماد لانے کے لئے کافی ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ اس بل کے بعد بھی اگر 2018ءکے انتخاب میں بھی دھاندلی کا الزام لگا تو یہ ہم سب کی ناکامی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس بڑا ڈیٹا بیس موجود ہے۔ بائیومیٹرک کے ذریعے دھاندلی کو روکا جا سکتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بائیو میٹرک کا نظام لانے پر بڑا سرمایہ لگے گا لیکن ملک مستحکم ہو گا ، کم از کم 2018ءکے انتخابات میں یہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال بھی ممکن نہیں نظر آتا۔ امیدوار کے الیکشن اخراجات 40 لاکھ رکھے گئے ہیں اللہ کرے اس رقم میں الیکشن لڑا جا سکے۔ جب تک لوگوں کو پولنگ سٹیشن تک پہنچانے کا انتظام نہیں ہو گا وہ کس طرح ووٹ ڈال سکیں گے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے ایک زمانہ تھا کہ آپ کو دفعہ 62،63 پر کوئی نہیں پکڑتا تھا جس طرح ایک زمانے میں پیپلزپارٹی کو توڑنے کے لئے نیب کو استعمال کیا گیا تھا اسی طرح لوگوں کو بلا کر کہا جائے گا کہ آپ کے ووٹرز ٹریکٹر ٹرالی میں ووٹ ڈالنے گئے ہیں تم نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ ابھی بھی وقت ہے کہ جو کمزوریاں ہیں ان کو ختم کریں ہم رسک نہیں لے سکتے ہمیں اس پر اجتماعی طور پر فیصلے کرنا ہونگے۔ تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ہماری پارٹی نے انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میں بھرپور کام کیا لیکن پھر بھی ہمارے اس بل پر بہت سے تحفظات ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ آئینی ترامیم اور بل اکٹھے پیش کئے جاتے اور منظور ہوتے اور اگرحکومت چاہتی تو یہ کر سکتی تھی۔اسی طرح سے ہمیں الیکشن کمشن اور نادرا سے جو سپورٹ ملنی چاہئے تھی نہیں ملی اگرالیکشن کمیشن سپورٹ کرتا تو کوئی مسائل پہلے حل ہو جاتے۔ ہمیں اس بل پر 4 اعتراضات ہیں۔ پہلا اعتراض ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملے۔ سپریم کورٹ اس پر فیصلہ دے چکی ہے۔ کمیٹی نےبھی متفقہ طور پر کہا تھا کہ اوورسیز پاکستانیز کو ووٹ کا حق ملے۔ ہم نے ترمیم دیہے ۔ دوسرا مسئلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بااختیار بنانا ہے۔ الیکشن کمیشن کی تقرری کا طریقہ کار بھی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہونا چاہئے کمیٹی میںاپوزیشن اور حکومت کے 50,50 فیصد اراکین ہونے چاہئےں۔ آزاد اور شفاف الیکشن کے لئے نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ نگران حکومت کی تشکیل بھی ا پوزیشن اور حکومت کے درمیان 50,50 فیصد کے اراکین کی کمیٹی کے ذریعے کی جانی چاہئے۔ اس کے لئے ہم نے آئینی ترمیم کا کہا تھا۔ جب تک بائیومیٹرک تصدیق نہیں ہو گی، انتخابات پر اعتماد نہیں ہو گا۔ جب تک 4 نکات کو حل نہیں کیا جائے گا ہم سمجھتے ہیں بل پاس بھی ہو گیا تو انتخابات صاف و شفاف نہیں ہونگے۔ ایم کیو ایم کے ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ بل میں کئی اہم اصلاحات کی گئی ہیں۔ صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کی کوشش کی گئی ہے۔ 40 لاکھ روپے امیدوار کے لئے اکٹھے کئے ہیں جو وہ اخراجات کے طور پر خرچ کر سکتا ہے۔ یہ غلط ہے رقم کم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اب بھی کچھ ترامیم ہیں تو ان کو شامل کر لینا چاہئے ورنہ پوری محنت کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ملک میں 10 دفعہ انتخابات ہوئے لیکنسبپر دھاندلی کے الزامات لگے۔ ہماری پارٹی کا مطالبہ ہمیشہ رہا ہے کہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات ہوں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے موجودہ انتخابی نظام میں تو جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار ہی ایوان میں آتے ہیں۔ الیکشن کو ہائیکورٹ کے اختیارات مل گئے ہیں اس پر عملدرآمد الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ آئندہ انتخابات کو شفاف انداز میں منعقد کیا جائے۔ پاکستان میں خواتین کا ایک کردار ہے خواتین کو وہ نمائندگی نہیں مل سکتی جو ملنی چاہئے تھی۔ انہوں نے کہا کہ اخراجات کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے۔ جے یو آئی(ف)کی نعیمہ کشور نے کہا کہ اس مسئلے پر کورم کی نشاندہی نہیں کی جانی چاہیئے تھی صاف شفاف انتخابات کے معاملے پر پیش رفت کے لیے بل کو بغیر کسی تاخیر کے منظور کیا جائے الیکشن متناسب نمائنگی کی بنیاد پر ہونے چاہئیںانہوں نے کہا کہ ہماری جماعت دفعہ 62،63کے خاتمے کے خلاف ہے اس دفعہ کی تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ آن لائن کے مطابق اپوزیشن جماعتوں پی پی پی‘ پی ٹی آئی‘ ایم کیو ایم‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام (ف) نے بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مزید ترامیم کرنے کی سفارش کی ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ بل کے مطابق جن حلقوں میں عورتوں کے ووٹوں کی تعداد 10فیصد سے ہو گی۔ ان حلقوں کے نتائج تسلیم نہیں کئے جائیں گے اگر لوگ خود ووٹ ڈالنے نہ آئیں تو پھر اس پر پابندی تھوڑی لگائی جا سکتی ہے۔ بلوچستان میں ایسے حلقے ہیں جہاں کل مرد ووٹرز کی تعداد 10 فیصد ہے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔
بل اعتراضات

ای پیپر-دی نیشن