مولانا فضل الرحمن کا نعرہِ حق اور چیئر مین سینٹ؟
پاکستان کے خیبر سے کیماڑی اور بولان تک کے کروڑوں سادہ دل عوام اس بات پر تشویش میں مبتلا تھے کہ آخر ایسی کیا بات ہو گئی کہ ایوان اقتدار کے مکینوں سمیت اس کی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والوں نے یک زبان ہو کر آئین کی شق نمبر 62 اور 63 کے خلاف بھرپور انداز سے اظہار خیال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور ایسے سیاسی عناصر کی طرف سے جو دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھرپور انداز سے اس کی تشہیر کی ہے آئین کی شق نمبر 62 اور 63 کے خلاف مخصوص سیاسی حلقوں کے پیدا کردہ شورو غل کی فضا میں اچانک ایک آواز ابھری جس نے تشویش میں مبتلا سادہ دل پاکستانیوں کو چونکا کر رکھ دیا یہ دبنگ آواز وقت کے ایک سفاک آمر جنرل (ر) ضیاءالحق کی آمریت کےخلاف شمشیر خاراشگان مولانا مفتی محمود کے فرزند ارجمند مولانا فضل الرحمن صدر جمعیت علماءاسلام کی تھی۔ جنہوں نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ ہاﺅس اسلام آباد میں اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران یہ نعرہ حق بلند کیا۔ وجوہ کچھ بھی ہوں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس دور زبوں حالی میں ببانگ دہل یہ الفاظ زبان سے ادا کئے کہ آئینی شقوں 62 اور 63 کو ختم کرنا سیکولر ذہنیت کو تقویت دینے کے مترادف ہو گا یہ الگ بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے میدان سیاست کے کرم فرماﺅں کی تسلی و تشفی کیلئے یہ بھی کہا کہ ان شقوں کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے انکے صادق اور امین کی قانونی تشریح کرنا ہوگی اور اس حوالے سے وہ ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ بعض مخصوص سیاسی عناصر نے آئین کی شق نمبر 62 اور 63 کو ختم کرنے یا نیم جان کرنے کی جو مہم زور و شور سے شروع کر رکھی ہے وہ ”ایں خیال است و محال است و جنوں“ کے مصداق نقش برآب ثابت ہوگی کیونکہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں جو شق نمبر 62 اور 63 کو من و عن برقرار رکھنے کی پوری طرح حامی ہیں اور اس کا ایک نقطہ بھی تبدیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں جبکہ ملک کے عوام کی عظیم اکثریت بھی اس بات پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہے پاکستان میں کرپشن سے پاک معاشرہ کے قیام کے احیاءاور بقاءکی خاطر آئین کی ان شقوں کا برقرار رہنا انتہائی لازمی ہے۔آئین کی شق نمبر 62 اور 63 کو ختم کرنے کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ ایسے اقدام کا مطلب سیکولر ذہنیت کو تقویت دینے کے مترادف ہو گا۔ پاکستان میں نام نہاد ترقی پسندی کی آڑ میں لادینیت کا پرچار کرنے یا لادینیت پھیلانے کے خواہاں عناصر کی نظر پاکستان دشمن سرگرمیوں کا راستہ روک دینے میں ممد ثابت ہوگا حصول وطن کی جنگ نظریہ پاکستان کی بنیاد پر لڑی گئی تھی۔ اسی حوالے سے بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے 21 نومبر 1945ءکو پشاور میں مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا”ہمارا مذہب ، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی شعائر ہمارے لئے حصول آزادی کے سلسلے میں ایک طاقت ہیں“ حضرت قائداعظم کا کہنا تھا کہ ”پاکستان کا مطلب صرف آزادی و خود مختاری ہی نہیں بلکہ اس کا مقصد اسلامی نظریہ کا تحفظ بھی ہے جو ہمارے لئے ایک بیش بہا خزانے کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد سبی دربار میں بلوچستان کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے 14 فروری 1948ءکو حضرت قائداعظم نے فرمایا ”یہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم ان زریں قوانین کی پیروی کریں جن کو ہمارے سب سے عظیم قانون دان پیغمبر اسلام نے وضع کئے تھے۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد اسلام کے اصول و ضوابط پر قائم کریں“۔
تاریخ کی انمٹ حقیقتیں ایسی ہوں تو پھر اس ملک میں ہر اس اقدام کا سوچنا تک ناقابل معافی جرم ہوگا جس کے نتیجے میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے فرمودات کی نفی ہوتی ہو اور ایسے لادین عناصر کی حوصلہ افزائی کا راستہ صاف ہو کر انہیں کھل کھیلنے کا موقع مہیا کرتا ہو۔ کیونکہ یہی وہ عناصر ہیں جن کی آنکھوں میں نظریہ پاکستان ہی نہیں اسکے تحفظ کی خاطر کٹ مرنے والے پاکستانی خار بن کر کھٹکتے ہیں۔ ایسے ہی لادین عناصر اغیاروں سے مستعار لئے ہوئے نظریات اور چمک دمک کے بل بوتے پر پاکستان میں نت نئے فروعی اختلافات کی چنگاریاں سلگانے سے گریز نہیں کرتے بلکہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ نظریہ پاکستان کی اساس کی بات ہو گی تو بانی پاکستان کے فرمودات کے مطابق کائنات ارضی کے سب سے عظیم قانون دان پیغمبر اسلام کی پیروی کرنے کا تذکرہ بھی ہوگا۔ ایسے قانون ساز اداروں میں بیٹھنے والوں کےلئے شق نمبر 62 اور 63 میں درج شرائط کوئی نئی بات نہیں ہوگی یقیناً یہی وہ حقائق ہیں جن کی روشنی میں مولانا فضل الرحمن نے ہرچہ باداباد کے مصداق ان شقوں کو من و عن برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مولانا فضل الرحمن انتہائی زیرک ہونے کے ساتھ ساتھ سرد و گرم جشیدہ سیاسی رہنما ہیں۔ انہوں نے اس بات کا ادراک بھی کیا ہوگا کہ پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت اسلامی نظریات کی بنیاد پر معاشرے کو صاف ستھرا رکھنے کےلئے آئین میں کسی ایسی تبدیلی یا ترمیم کی حمایت نہیں کرے گی جس سے ملک کا نظریاتی تشخص مجروح ہو۔ جبکہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی ہرگز ہرگز ایسا نہیں چاہتیں۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی خدا معلوم کن مقاصد کے تحت عدلیہ فوج اور حکومت کے مابین ڈائیلاگ کرانے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں۔ خدا معلوم انکے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ جبکہ پاکستان اور اسکے لوگوں کو دہشت گردوں کی خون آشام کارروائیوں سے محفوظ رکھنے اور انکی پاکستان دشمن دہشت گردوں کے قلع قمع کے سلسلے میں عسکری اداروں کی کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہیں افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں نے اس راہ پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے جو کارہانے نمایاں انجام دیئے اور دے رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی عسکری تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جائینگے۔ ملک کی پارلیمنٹ کا جہاں تک تعلق ہے پارلیمنٹ کمزور نہیں ارکان پارلیمنٹ بوجوہ کمزور ہونگے۔ اور یہ لوگ مختلف النوع سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ یہی وہ مخلوق ہے جو اپنی دھن دولت کے بل بوتے پر انتخابات میں کامیاب ہو کر جمہوری اداروں میں داخل ہوئے اور پھر یہی وہ عوامی نمائندے ہیں جو ”مک مکا“ کے کاروبار میں ملوث ہوئے اور انہی میں سے ارباب حکومت بنتے ہیں۔ یقیناً انہیں آئین کی شق نمبر 62 اور 63 سے ضرور زک پہنچ سکتی ہے۔ جہاں تک ارض وطن کی عدلیہ کے فاضل ارکان کا تعلق ہے ان کا حلف بھی ہوتا ہے جس کا پاس اور لحاظ کرنا وہ جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ حالات و واقعات ایسے حقائق سے عبارت ہوں تو کسی بھی لحاظ سے عدلیہ، فوج اور حکومت کے مابین کسی بھی قسم کے ڈائیلاگ کا اہتمام بلا وجہ نہ صرف لاتعداد شکوک و شبہات کو جنم دینے کا موجب ہوگا بلکہ اس قسم کے الزام کے نتیجے میں ملکی مفادات اور عوام کے انسانی و شہری حقوق کے مستقبل کے بارے میں کئی ایک سوالات بھی پیدا ہوں گے۔ کیا یہ ملک کیلئے بہتر نہیں ہوگا کہ ہر ادارے کو اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے قواعد و ضوابط اور حلف کی روشنی میں آزادانہ کام کرنے دیا جائے؟