مرے ہی دیس کی مٹی نے مجھ کو سینچا ہے
وطن کی کچی مٹی کی باس اگر ذہن اور روح کی گہرائیوں میں اترجائے تو راست سمت کا تعین خود بخود ہوجاتا ہے، لیکن معاملہ اگر اس کے برعکس ہو اور سفرکا تعین نہ ہو راست سمت متعین نہ ہو تو ہر سفر معکوس ہے راستہ اور ’’راستی‘‘ میں نمایاں فرق ہے جو راستہ ’’راستی‘‘ کی طرف نہیں جاتا وہ منزل کا سفرکیسے ہوسکتا ہے لیکن اگر راستی ہی محور و مرکز ہے تو ہر قدم منزل ہے اسی طرح نیت باوضو نہ ہو تو نیک مقامات کہلاتا ہے14اگست بھی تجدید احیاء کا دن ہے کہ ہم یکجا ہوکر صحت مقصد کا تعین کرسکیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹرکالجز پروفیسر ظفر عنایت انجم نے چودہ اگست کے موقع پر باغبانپورہ کالج میں کیا ان کے نزدیک کامیابی کا تمام سہرا خلوص نیت کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ پر بھی ہے جوکہ نسلوں کی تعمیرکرتے ہیں اساتذہ کا بھرپور تعاون ہی وہ نسل مہیا کر سکتا ہے کہ جس پر پاکستان کی ایک مضبوط عمارت تعمیرکی جاسکتی ہے اس موقع پر ڈپٹی ڈائریکٹر محمد زاہد میاں نے کہا کہ اصل ترقی تو وہ ہے کہ ہم دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے قوت بازور پر اظہارکریں۔ اپنی تمام تر توجہ مقصد اور صحت مقصد پر رکھیں۔ 14 اگست کے موقع پر ڈائریکٹرایجوکیشن پروفیسر ظفرعنایت انجم اور ڈپٹی ڈائریکٹرز محمد زاہد میاں اور منورحسین کی شرکت نے نہ صرف کالج کو شرف پذیرائی بخشا بلکہ ان کے خیالات میں ایک نئے ولولے اور جذبے کو زندہ کردیا یہ وہی جذبہ ہے کہ ہمیں اس کی شدید ضرورت ہے قارئین کرام مقصد کا تعین کئے آگے بڑھنا دراصل ایسا ہی ہے کہ انسان بے ہنگم اور ناہموار راستوں کی طرف چل نکلے۔ کامیابی حاصل کرنا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے درحقیقت ہم نے کامیابی کو ’’ہوا‘‘ بنا لیا ہے اور ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں اور اس طرح کی کامیابی کی دوڑ میں انسان اپنوں سے بچھڑ جاتا ہے اور ایک مقام یہ بھی آتا ہے کہ وہ خود سے بھی بچھڑجاتا ہے اور خود سے بچھڑا ہوا انسان ہجوم تو بن جاتا ہے قوم نہیں بنتا۔ ایک جاپانی مفکر فوکویاما شاید اسی بات کا ان الفاظ میں ذکرکرتا ہے کہ ان تمام بحرانوں پر قابو پائے گا ذریعہ صرف یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کو بلند کیا جائے اور اس کام کا آغاز نئی نسل سے کیا جائے توآگے چل کر ایک تنومند درخت کی صورت میں ابھرکر سامنے آتا ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے کہ قوم کی بنیادوں کو درست کیا جاسکتا ہے یاد رہے کہ سندھ کو گرچہ محمد بن قاسم نے فتح کیا لیکن دلوں کو عبداللہ شاہ غازی نے فتح کیا، اور دلوں کی فتح ہی درحقیقت وہ کامیابی ہے جس پر مضبوط عمارت تعمیرکی جا سکتی ہے آج بھی ہمیں ان ہی اقدار کی ضرورت ہے اس وحدت فکرکی ضرورت ہے جس سے وحدت عمل کا جذبہ پیدا ہو۔ اگروحدت عمل نہ ہوگی تو مضبوط پاکستان کیسے پیدا ہوگا۔
انہی خیالات کا اظہار ڈائریکٹرکالجز پروفیسر ظفرعنایت انجم نے بھی کیا کہ ہمیں ایک مربوط فکری نظام کی ضرورت ہے، جس کے بعد پاکستان کی تعمیر کا مرحلہ طے ہو۔
اس موقع پر طالبات کا عزم حوصلہ ولولہ اور جذبہ قابل دید تھا۔ مختلف ملی نغموں اور تقاریر میں انہوں نے اسی تصور کو اجاگرکیا کہ آزادی ایک مسلسل نگہبانی چاہتی ہے۔ جو قومیں خود پر نگہبان نہ ہوسکیں ان پر دوسری قوموں کو نگہبان کردیا جاتا ہے۔ آزاد ہونے کے بعد آزادی کیسے برقرار رکھی جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم وطن سے محبت اور اخلاص کا اظہارکریں اور عملی جدوجہد کو اپنا وتیرہ بنائیں۔ اس موقع پر ڈائریکٹراور ڈپٹی ڈائریکٹرز کی کالج میں آمد اور طالبات کی حوصلہ افزائی حب الوطنی اورعملی جدوجہد کا ہی شاخسانہ تھی۔ وہ اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف طالبات میں عزم اور حوصلے کو زندہ کیا بلکہ ایک مضبوط پاکستان کے لئے طلباء کے کردار کی اہمیت کو واضح کیا۔ …؎
مجھے زوال کہاں چھو کے اب یوں گزرے گا
کہ میرے دیس کی مٹی نے مجھ کو سینچا ہے