رضا ربانی کی پیشکش .... آئینی یا غیرآئینی
ٹکراﺅ مناسب نہیں .... وزیراعظم‘ چیف جسٹس اور فوجی قیادت میں ڈائیلاگ ہونا چاہئے‘ سینٹ میں بلائیں گے۔ یہ فرمانا ہے سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی کا.... اگرچہ ان کی اپنی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک پریس کانفرنس میں ان کی اس مہم جوئی پر سوال کے جواب میں بڑی بے اعتنائی سے کہہ دیا کہ اگر رضا ربانی سمجھتے ہیں خطرہ ہے تو ضرور ڈائیلاگ کریں۔
میرا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں عدلیہ اور فوج کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ میں نے آئین پاکستان میں سینٹ اور اس کے چیئرمین کے اختیارات سے متعلق دفعات ان کی تشریح اور توضیح کا نئے سرے سے مطالعہ کیا۔ مجھے سینٹ کے چیئرمین کا یہ کردار جو رضا ربانی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ آئین میں کہیں نظر نہیں آیا۔
وہ آئین کی کس دفعہ کے تحت حکومت کے سربراہ‘ فوج کے سربراہ اور عدلیہ کے سربراہ کو سینٹ میں طلب کریں گے؟ یہ پیشکش یا خواہش‘ آئینی یا غیرآئینی؟ کس بات پر ان کے درمیان ڈائیلاگ کرائیں گے؟ اگر چیف جسٹس نے پوچھ لیا کہ عدلیہ کی طرف سے ایک بیان دکھا دیں جو اداروں میں ٹکراﺅ سے متعلق ہو یا کوئی غیرآئینی فیصلہ سامنے لے آئیں جس سے اداروں کے درمیان ٹکراﺅ کا مفہوم نکلتا ہو تو ان کے پاس کیا جواب ہوگا؟ اگر فوج کے سربراہ نے پوچھ لیا کہ حضور آپ کے دماغ پر جو ٹکراﺅ ہے اسے بیان کریں اور بتائیں کہ فوج نے کہاں بطور ادارہ کے ٹکراﺅ کی بات کی ہے۔
آپ کا جب بس چلتا ہے موقع بہ موقع فوج کو لتاڑتے رہتے ہیں‘ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے اپنے علاوہ ہر ادارے پر شک و شبہات بلکہ بے جا الزامات لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے پوچھ لیا کہ مجھے تو اپنے آئینی کردار کی ادائیگی میں کوئی دشواری نہیں تو ان کے پلے کیا رہ جائے گا۔
چیف جسٹس نے اگر پوچھ لیا جناب چیئرمین سینٹ عدلیہ میں تطہیر کے عمل میں اگر ان ایک سے زائد ججوں کو گھر بھیج دینے کو نظرانداز بھی کریں جنہیں افتخار چودھری نے اپنی بحالی کے فوراً بعد ان پر پی سی او کی مُہر لگا کر گھربھیج دیا تھا اور جس میں ان کے پیشرو چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر فائز رہنے والے جسٹس عبدالحمید ڈوگر بھی تھے تو پھر قیوم ملک اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس راشد عزیز کو سپریم کور ٹ کے نو ججوں کے فل بنچ نے جسٹس شبیر جہانگریری کی سربراہی میں گھر بھیج دیا تھا۔
جنرل قمرجاوید باجوہ بول پڑیں کہ میرے پیشرو جنرل راحیل شریف نے فوج کے لیفٹیننٹ جنرل‘ میجر جنرل اور بریگیڈیئرز کے علاوہ اس سے نچلے رینکس کے کتنے حاضر سروس افسران کو کرپشن میں ملوث ہونے پر گھر بھیج دیا۔ آپ بھی ذرا بتائیں کہ سینٹ کے چیئرمین کے طور پر آپ نے کسی سینٹ کے رکن کیخلاف ایکشن لے کر اس ادارے کو باوقار بنایا
آپ نے تو اس نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہیں کیا تھا جس نے ٹیلی ویژن پر حکومت پاکستان کے افسروں کو گالیاں دیں‘ دھمکیاں دیں ان افسروں اور ججوں کے بچوں پر اس وطن کی زمین تنگ کرنے کی بات کی‘ اس کی آنکھوں میں اترا خون اور اس کے غصے سے کانپتے ہوئے ہونٹ اور ہاتھ سبھی کی ویڈیوز محفوظ ہیں۔ اس نے اپنی جماعت کے سربراہ کے حکم پر برضا ورغبت استعفیٰ دیا تھا مگر آپ نے اس آئینی شق کا سہارا لے کر کہ مستعفی ہونے والا سینٹ کے چیئرمین کے سامنے اپنے استعفیٰ دینے کے حوالے سے کسی جبر یا زبردستی کے عوامل کی نفی کرے اور اپنی مرضی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرے حالانکہ سینٹ کے چیئرمین کے سامنے پیش ہوکر صرف اس نے یہ تصدیق کرنا تھی کہ یہ استعفیٰ اسی کا ہے اور یہ دستخط اسی کے ہیں مگر آپ نے خود اس کی توجیح کرکے اس کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔
آپ کی جماعت کے دو ارکان سینٹ کی سورة اخلاص غلط پڑھنے کی ویڈیوز چل رہی ہیں جب تک 62-63 کی دفعات آئین کا حصہ ہیں ان پر عمل نہ کرکے اور ان کی رکنیت ختم نہ کرکے آپ نے اپنے آئینی فرض کو ادا کرنے سے روگردانی نہیں کی؟
اس موقع پر مجھے وہ بھولا بھالا یونیورسٹی کا استاد یاد آرہا ہے جو ایک روز مجید نظامی صاحب کے کمرے میں کھڑا تھا اور میرے اندر داخل ہوتے ہی اجازت لے کر جانے لگا تو نظامی صاحب نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا آپ کی پیشکش پر غور کریں گے اور ساتھ ہی کرسی پر بیٹھتے ہی کہنے لگے یہ موصوف کیا فرما رہے تھے۔ میرے لاعلمی والے جواب سے پہلے ہی کیونکر انہیں یہ تو معلوم تھا کہ میرے سامنے تو کوئی بات نہیں ہوتی اس لئے مجھے کیا پتہ ہوسکتا ہے۔ کہنے لگے فرما رہے تھے کہ وہ نوائے وقت اور جنگ کی صلح کرانا چاہتے ہیں۔
مجھے اور میر خلیل الرحمن میں ڈائیلاگ کرا کر غلط فہمیاں دور کرانا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی مجید نظامی صاحب نے کہا آپ بتائیں اس کا ہم دونوں پر کیا اثر ہے کم از کم مجھ پر تو بالکل ہی نہیں اور مجھے یقین ہے میر خلیل الرحمن بھی اسے گھاس نہیں ڈالتے پھر اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر کہنے لگے موصوف کو اپنے بارے کتنی غلط فہمی ہے۔
رضا ربانی صاحب آپ کو بھی اپنے بارے میں کچھ زیادہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے اپنا کام کریں اور آئین کی دفعات پر پورا نہ اترنے والے سنیٹروں کو فارغ کریں جس نے خود استعفیٰ دیا تھا‘ اس کا استعفیٰ منظور کرلیا کریںمن مانی تشریح نہ کریں۔