اختلافات ظاہر کر دوں تو پارٹی اور قیادت کو نقصان پہنچ سکتا ہے : نثار
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ خبر نگار خصوصی) سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال کی ذمہ داری کسی ایک فرد پر عائد نہیں ہوتی ہم سب اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں ہم سچ بولنا شروع کر دیں تو بہت سی خرابیاں اور غلطیاں دور ہو جائیں گی اس وقت پارٹی اور پارٹی لیڈرشپ مشکل میں ہے، وزارت سے علیحدگی کی وجوہات بتانے کیلئے مناسب وقت نہیں ہے، بعض معاملات پر اختلاف رائے ہوتا ہے کوئی ایسے ہی وزارت نہیں چھوڑ دیتا۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مجھے وزار ت داخلہ کا حلف لینے کے لئے کہا لیکن میرے دوبارہ حلف نہ اٹھانے کے لئے معقول دلائل تھے۔ حکومت نیوز لیکس رپورٹ کو منظر عام پر لائے۔ عدالتی حکم موصول ہونے پر پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دی گئی، پرویز مشرف کی واپسی سے متعلق ٹرائل کورٹ لکھے گا تو وزارت داخلہ ریڈوارنٹ جاری کر دے گی، میٹنگ اور اجلاس میں ہونے والی تنقید یا بات کو باہر نہیں آنا چاہیے، جو کوئی پارٹی کی بند کمرے میں ہونے والی بات منظر عام پر آتی ہے وہ بددیانتی کے زمرے میں آتی ہے۔ عسکریت پسندوں سے مذاکرات پر تمام ادارے ایک ’’صفحہ‘‘ پر تھے، پاکستان میں دہشتگردوں کاکوئی نیٹ ورک نہیں، ہمیں صبر اور ثابت قدمی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بات اتوار کو پنجاب ہائوس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میں نے کوئی خبر لیک نہیں کی، میں صحافیوں سے کہوں گا کہ مجھ سے متعلق کوئی بیان چلانا ہو تو اس کی تصدیق ضرورکر لیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ 24 روز بعد میڈیا کے سامنے آیا ہوں اور وزارت داخلہ کا سوا چار سال کی کارکردگی آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں کبھی اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنا، اپنی وزارت کی کبھی تعریف نہیں کی، میں نے اپنی جو کارکردگی دکھائی ہے اس کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ بہت سے ذی شعور لوگوں کی جانب سے وزارت داخلہ کی آئینی اور قانونی حیثیت جانے بغیر اس پر تنقید کی گئی۔ تنقید کرنے والوں کو وزارت داخلہ کے اختیارات کا علم نہیں۔ کوئٹہ انکوائری کے حوالے سے رپورٹ آئی تو میں نے ایک نوٹ سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا اور اسی طرح 40 صفحات پر مشتمل ایک مختصر نوٹ تیار کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ شروع میں ایک مسلح شخص آیا تو اس کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالی گئی جبکہ لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری صوبوں کی ہے لیکن جو اچھے کام ہوئے اس کی ذمہ داری لینے کیلئے بہت سے لوگ سامنے آئے اور جہاں خامی نظر آئی اس کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی لیکن میں خاموش رہا۔ سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ 4برس میں سارے کام ہوگئے بلکہ اندرونی سکیورٹی کے معاملے پر بہت کام ہونا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید میٹنگ اور اجلاس میں ہونی چاہیے اور عوام کے سامنے نہیں ہونی چاہیے اسی لیے بلاجواز ہونے والی تنقید کا کبھی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت اختلافات ظاہر کرنے کا نہیں، اختلافات ظاہر کر دوں تو پارٹی اور قیادت کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی اجلاس کی باتیں بھی لیک نہیں ہونی چاہیے۔ سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ آج بھی میں اپنی کامیابیوں کا کریڈیٹ اکیلے نہیں لینا چاہتا کیونکہ اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل تھی۔ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ جب بھی کوئی واقعہ ہوا وزارت داخلہ پر ذمہ داری ڈالی گئی، درگاہ لعل شہباز قلندر دھماکے کے بعد ایک پارٹی کی تنقید کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں 5، 6 دھماکے روز ہوتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ آج کم دھماکے ہوئے، اتنے برے حالات تھے۔ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات پر تمام ادارے ایک پیج پر تھے تاہم پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے ڈبل گیم کھیلی۔ کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیاگیا لیکن پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جے یوآئی آپریشن کی مخالف تھی تاہم قومی مفاد میں تینوں پارٹیوں نے آپریشن کی مخالفت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی نیٹ ورک نہی، پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں دہشت گردی میں کمی آئی اور ابھی دہشت گردوں کیخلاف جنگ آخری مراحل میں ہے۔ سابق وزیر داخلہ نے کراچی آپریشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 5ستمبر کو کراچی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، 27اگست کوکراچی آپریشن کا اعلان کیا اور آج کراچی کسی ایک شخص کے پاگل پن پر یرغمال نہیں ہوتا۔ انہوں نے وزارت داخلہ کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ چار برسوں میں 10 کروڑ سمز منسوخ کی گئیں، 2 لاکھ ممنوعہ بور کے لائسنس منسوخ کئے گئے، 10ہزار سے زائد لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکالے، 2000 سے زائد سفارتی پاسپورٹ منسوخ کئے، 32 ہزار جعلی پاسپورٹ اور ہزاروں جعلی شناختی کارڈ منسوخ کئے گئے۔ سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ میں نے کبھی سیاست چھوڑنے کا نہیں کہا، شاید میرے سمجھانے میں مسئلہ پیدا ہوا جبکہ یہاں خود سے کونسلر شپ نہیں چھوڑی جاتی میں نے وزارت داخلہ سے خود کو الگ کیا، میں نے اختلاف رائے کی وجہ سے خود کو الگ کیا جبکہ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے آخری وقت تک کوشش کی کہ میں وزارت داخلہ کا منصب دوبارہ سنبھال لوں۔ انہوں نے کہاکہ اس رپورٹ کو عام کرنا حکومت کا کام ہے کیونکہ یہ وزارت داخلہ کے تحت نہیں ہے۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ میں 45 لوگ تھے اور اس میں پارٹی پالیسی سے میں نے اختلاف کیا مگر اس اختلاف کی خبر جس نے لیک کی وہ بددیانت لوگ ہیں۔ میں نے وزارت داخلہ کا عہدہ نہیں لیا کیوں کہ اس کے پیچھے کچھ وجوہات تھیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پرویز مشرف کیس ملک کی عدالتوں میں چلتا رہا، ہائی کورٹ ، سپریم کورٹ اور خصوصی عدالت میں انہوں نے اپنا موقف دیا جس کے بعد سابق صدر کو جانے کی اجازت ملی، مشرف وزارت داخلہ سے پوچھ کر نہیں گئے۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ پرویز مشرف کے معاملے پر کورٹ کے فیصلے کو پڑھیں، سابق صدر کو عدالت کی جانب سے حکم موصول ہونے پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی۔ چوہدری نثار علی خان کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی تینوں سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے بھی آپریشن سے قبل عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی حمایت کی۔ میڈیا میں اس حوالے سے آنے والی خبروں، کالموں کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش نہ کیا جائے، دینی جماعتوں جماعت اسلامی پاکستان، جمعیت علماء اسلام (ف) اور پاکستان تحریک انصاف تینوں نے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد فوجی آپریشن کی مخالفت نہیں کی، اس طرح مذاکرات بھی قومی اتفاق رائے سے ہوئے اور فوجی آپریشن بھی اتفاق رائے سے شروع ہوا۔ چوہدری نثار علی خان نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور پارٹی کے حوالے سے اختلافات رائے کے بارے میں بات کرنے سے گریز کیا، سیاسی حلقوں اور میڈیا میں چوہدری نثار علی خان کی سیاسی معاملات پر دھواں دھار پریس کانفرنس کی توقع کی جا رہی تھی، اس حوالے سے میڈیا خبریں بھی دے رہا تھا تاہم چوہدری نثار علی خان نے پارٹی اور سیاسی معاملات پر بات کرنے سے گریز کیا، اس حوالے سے ان سے متعدد سوالات بھی کئے گئے لیکن کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے پارٹی کو نقصان پہنچے۔ چوہدری نثار علی خان نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اس بیان کہ انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دلوانے میں جنرل (ر) راحیل شریف نے کردارادا کیا تھا سے متعلق سوال کا بھی جواب دینے سے انکار کر دیا۔ 2014کے دھرنے سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے بھی سابق وزیرداخلہ نے گریز کیا۔ آج بھی ویزوں اور بین الاقوامی این جی اوز کے معاملے پر پاکستان پر دبائو ہے، کئی ایک سربراہان مملکت نے اس معاملے میں مداخلت کی ہے، اسی طرح وزارت داخلہ کو ای سی ایل کی پالیسی کے حوالے سے اندرونی طور پر شدید دبائو کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کے پاس کوئی ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں، نہ وزارت داخلہ کوئی اور وزارت پالیسی میکنگ کا ادارہ ہوتا ہے، یہاں کسی ضلع میں بھی ہونے والے جلسے کی اجازت کے معاملے کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر ڈالی گئی، یہاں جو اچھے کام ہوتے تھے تو سب اس کی ذمہ داری لے لیتے ہیں جبکہ کسی خراب کام کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی جاتی ہے، یہاں 20,20پر فوکس ہوتا ہے، ٹیسٹ میچ پر کسی کی توجہ نہیں، 2013جون میں، میں نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور اندرونی سکیورٹی پر بات کی ، لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت آرمی آن بورڈ نہیں تھی جبکہ آرمی آن بورڈ تھی، جنرل کیانی اس وقت آرمی چیف تھے، نیشنل ایکشن پلان پشاور اور اے پی ایس واقعہ کے بعد ایکٹویٹ ہوا، آج پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جہاں دہشت گردی کا گراف نیچے آیا، آج پاکستان میں نہ کوئی دہشت گردی کے مراکز ہیں، کوئی زیر زمین نیٹ ورک نہیں چل رہا، کراچی آپریشن ہم نے ایک مہینے بعد ٹیک اوور کیا، دہشت گردوں کے خاتمہ کا آخری مرحلہ ہے اس میں کچھ مشکلات آئیں گی، سرحد پار دہشت گردی کا نیٹ ورک بھی ہے اور مراکز بھی، اب دہشت گرد کمزور ہدف کو نشانہ بناتے ہیں، ہم نے 100بلین سے زائد کے اخراجات امن وامان کیلئے خرچ کئے، دو لاکھ سے زائد ممنوعہ بورڈ کے لائسنس منسوخ کئے، چوہدری نثار نے کہا کہ اسلام آباد میں 400گھر ایسے تھے جو غیر ملکیوں کے زیر استعمال تھے اور وہ اپنے آپ کو رجسٹر کروانے کو تیار نہ تھے، میں نے ان کو رجسٹر کروانے کیلئے اقدامات کئے، میں حیران ہوں جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسلحہ لائسنس پر پابندی لگائیں گے۔ انٹیلی جنس ایجنسیز نے کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، چوہدری نثار نے کہا کہ میں اب حکومت میں نہیں میرے بعد پتہ نہیں کیا ہوتا ہے۔
چوہدری نثار