بیداری امت کے لیے علامہ اقبالؒ کے چند خطوط
حضرت اقبالؒ مسلم نوجوان کو شاہیں کہہ کر پکارتے ہیں تو کبھی اسے بتلاتے ہیں کہ سستی اور کاہلی کو چھوڑ کر کائنات کو تسخیر کرنے کی کوشش کر۔ وہ اپنے کلام سے ایک طرف مسلمانوں کو ان کے تابناک ماضی سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف مسلم قوم کو دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کی ترغیب دیتے ہے۔ اقبال کی نمایاں ترین خصوصیات جو ان کے خطوط سے نظر آتی ہیں۔ اس میں سب سے پہلے نمبر پر علم دوستی ہے۔ اقبال کی تصانیف کا مطالعہ کریں تو ان کا کلام ایک علم دوست اور علم پرور انسان کے طور پر نظر آتا ہے۔ ایک بہتر اور متوازن معاشرے کی تخلیق کے لیے وہ ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے اقبالؒ مسلمانانِ عالم کی ذبوں حالی پہ بہت دکھی رہتے تھے۔ بید اری امت کے لیے مختلف سیاسی اور مذہبی راہنماوں کو آپؒ اکثر خط لکھا کرتے تھے۔ آج آپؒ کے خطوط سے کچھ پیش خدمت ہے۔
ہندوستان میں علامہ کو اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے متعلق بہت بڑا خطرہ نظر آتا تھا۔ جس کے انسداد کے لیے آپ نے بہت سی تحریریں لکھیں۔ انہیںمسلمانوں کی بے حسی ٟبے بسی اور تعلیم سے دوری بہت پریشان کرتی تھی۔ اپنے ایک مکتوب میں غلام بھیک صاحب نیرنگ کو لکھتے ہیں۔ میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاست سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے، جیسا کہ آجکل کے قوم پرست راہنماوں کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے۔ تو مسلمان اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ آگے چل کہ آپ لکھتے ہیں۔ میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں اور سیاسیات حاضرہ کے تھوڑے سے تجربے کے بعد کہ ہندوستان کی سیاسی روش میں جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے خود مذہب اسلام کے لیے خطرہ عظیم ہے۔ مخدوم میراں شاہ کو لکھتے ہیں، دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو اس امر کی توفیق د ے کہ آپ اپنی قوت ٟہمت ٟاثر ورسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشرو اشاعت میں صرف کریں۔ عالم اسلام کے اس پستی کے دور میں حضورؐ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے۔ افسوس شمال مغربی ہندوستان میں جن لوگوں نے علم اسلام کو بلند کیا ان کی اولادیں دنیاوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں اور آج ان سے زیادہ جاہل مسلمان کوئی اور مشکل سے ملے گا۔ مستقبل کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی فکر کا یوں اظہار کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوا کہ بہت سے مسلمانوں کو ابھی تک اس کا احساس نہیں کہ ہندوستاں میں مستقبل کے بارے میں کیا سوچا جارہا ہے اور اگر وقت پر اس اہم مسئلہ پر توجہ نہ دی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل اس ملک بہت بھیاناک ہو گا۔ آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل قوموں کی طرح ہو جائے۔ اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک میں فنا ہو جائے۔ مسلمانوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے ایک جگہ لکھتے ہیں۔ اصلاح امت اور مسلمانوں کی بیداری مہم کی تکمیل کے لیے مجھے اپنے تمام کام چھوڑنے پڑے تو انشااللہ چھوڑ دوں گا۔ اور اپنی زندگی کے باقی ایام اس مقصد جلیل کے لیے وقف کردوں گا ہم لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔منشی صالح کو لکھتے ہیں کہ۔اسلام پر بڑا نازک وقت ہندوستان میں آرہا ہے۔ سیاسی حقوق اور ملی تمدن کا تحفظ تو ایک طرف، خود اسلام کی ہستی معرض خطر میں ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ میں بہت مدت سے اس مسئلے پر غور کر رہا ہوں کہ ہم ایک بہت بڑا نیشنل فنڈ قائم کریں جو کہ ایک ٹرسٹ کی صورت میں ہو اور اس کا روپیہ مسلمانوں کے تمدن اور ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت اور دینی علوم کی اشاعت وغیرہ پر خرچ کیا جائے۔ مسلمانوں کی دینی اور سیاسی اعتبار سے تنظیم کی جائے۔ قومی عساکر بنائے جائیں اور ان تمام وسائل سے اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کر کے ان کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے۔ ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام سیاسی و تمدنی مشکلات کا علاج ہے۔ ہندی مسلمانوں کے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے رہے کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ اس کے افراد بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہے۔ بلکہ آج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔اقبال ایک سچے عاشق رسولؐ تھے۔ زمانے کی نبض پر شائد اسی لیے ان کا ہاتھ تھا۔علامہ مرحوم ساری زندگی ہندوستانی مسلمانوں کی حالت میں بہتری لانے کے لیے فکر مند رہے۔ جب کبھی اور جہاں انہیں ایسی تحاریک یا اعمال سے سابقہ پڑتا تھا۔ جو مسلمانوں کو ان کے مقاصد عالیہ سے منحرف کرنے کے لیے جاری کی جاتیں تھیں۔ علامہ کی نگاہِ دوربیں اُن خطرات کو دور سے ہی بھا نپ لیاکرتی تھی۔ اور پھر علامہ ان کی مخالفت میں بھرپور آواز بلند کرتے تھے۔ ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا ہندووُں کے ہاتھوں بک جانا کسی صورت گوارہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ اس وقت اسلام کا دشمن سائنسی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ اسلام کا اصل دشمن یورپ کا جغرافیائی جذبہ قومیت ہے قائد اعظم کو ایک خط میں علامہ لکتے ہیں کہ۔شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریق پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم ازکم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ سالہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہا ہے ۔اور میں اب بھی اسے ہی مسلمانوں کی ترقی اور ہندوستان کے امن کا حصول سمجھتا ہوں۔ آپ مزید لکھتے ہیں کہ ڈیر جناح۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب ان کا جداگانہ وطن ہی ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ اس امر میں بھی آپ سے متفق ہوں کہ ہماری قوم ابھی تک نظم و ضبط سے محروم ہے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ہندوستان میں آج جو کچھ ہو رہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس خطرہ کو اپنی دور اندیشی سے دیکھ لیا تھا اور اسی لیے انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک کا خواب دیکھا تھا۔ جہاں وہ اپنی مرضی سے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ افسوس آج اتنے سالوں بعد بھی ہم اقبال کی فکر اور سوچ کو اس ملک میں پروان نہ چڑھا سکے۔ اقبالؒ کا فلسفہ صرف ایک دن انہیں یاد کرنے سے نئی نسل میں پروان نہیں چڑھ سکتا ہے۔ بلکہ ہمارے اکابریں کو چاہیے کہ اس ملک کے نوجوانوں کو اقبال کا شاہیں بنانے کے لیے سکول و کالجز کے نصاب میں اقبال کا زیادہ سے زیادہ کلام شامل کیا جائے۔