سیاست، باسکٹ بال اور اتھلیٹکس
ارادہ اس مرتبہ رکن قومی اسمبلی، سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ضیائ) کے سربراہ اعجاز الحق کے دیئے حالیہ اس بیان پر لکھنے کا تھا جس میں انہوں نے عدالت عظمیٰ کے 5 معزز ججوں کے قلم سے نا اہل قرار پائے جانے والے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کو اپنے والد جنرل محمد ضیا الحق پر تنقید نہ کرنے کا انتباہ کیا ہے سب سے دلچسپ سے حیرت انگیز بات یہ کہ جنرل ضیاءالحق مرحوم کو مبینہ طور پر تنقید کا نشانہ اب اس سابق وزیراعظم نے بنایا ہے جو ضیا الحق کی سیاسی اور روحانی محبت کی بدولت اقتدار پر فائز رہے اور اس دور حکومت میں اعجاز الحق نے متعدد بار وزارت کے مزے لوٹے۔ اعجاز الحق کو مسلم لیگ (ن) کا اتحادی ہوتے ہوئے اچانک اب نواز شریف کو تنبیہہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟؟ اعجاز الحق کی یہ سیاسی لن ترانی میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
خیال تھا اس بارے میں مزید کہوں مگر 2017 کے لندن میں منعقدہ مالی اتھلیٹکس مقابلوں نے موضوع کا رخ اچانک اپنی جانب موڑ لیا۔ اتھلیٹکس سے محبت اور باسکٹ بال سے عشق کی حد تک پیار آج بھی میری سب سے بڑی کمزوری ہے اس لئے اپنی اس کمزوری کے ہاتھوں مجبور ہو کر سپورٹس اور کھیلوں کی اصلاح اور کھلاڑیوں کے علاوہ آفیشلز کو مثبت تجاویز دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
میدان صحافت میں اترنے سے قبل سکول، کالج، ڈسٹرکٹ، ڈویژن، صوبائی اور قومی سطح پر بھرپور باسکٹ بال کھیل چکا ہوں۔ اس کھیل کے علاوہ دیگر کھیلوں میں پائی جانے والی مفاداتی سیاست، سفارش اور سپورٹس کنٹرولز بورڈز میں پائی جانے والی دھڑے بندیوں اور عہدوں کی جنگ میں کسی بھی حدتک جانے والے آفیشلز کا بھی مجھے بخوبی اور ادراک ہے اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ اصلاح کا فرض پورا کرتا رہوں۔ کھیل کوئی بھی ہو اسے اگر میدان سیاست میں یا اقربا پروری کی نذر کر دیا جائے تو وہ کھیل نہیں رہتا۔
باسکٹ بال کے زوال پذیر ہونے کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ حکومت نے کرکٹ اور ہاکی اور ہاکی کی طرح اس کھیل کی کبھی بھی سرپرستی نہیں کی جبکہ افواج پاکستان سمیت آرڈر سروسز، پولیس، ریلوے، واپڈا، پی او ایف، ڈویژنز اور صوبائی سطح پر باسکٹ بال ایک مقبول عوامی کھیل ہے مگر دکھ یہ کہ صوبائی قومی اور عالمی سطح پر اپنے جوہر دکھانے والے بیشتر کھلاڑی یا تو بے روزگار ہیں اور یا پھر انتہائی معمولی معاوضے پر اداروں کی جانب سے کھیل کر ملک کی اس کھیل کی خدمت کرتے ہوئے اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
کھلاڑیوں کو جب سہولتیں اور جدید ٹریننگ ہی میسر نہ ہو تو ان سے مثبت نتائج کی توقع رکھنا عبث ہے اس میں بھی قطعی شک نہیں کہ پاکستان میں باسکٹ بال کی ترویج و ترقی کے لئے فیڈریشن بھی موجود ہے جس کے سربراہ بریگیڈیئر (ر) رشید ہیں۔ بریگیڈیئر رشید اور آنجہانی بریگیڈیئر دانیل ایسے دو کھلاڑی ہیں جن کی عالمی سطح پر بھی پہچان ہے۔ آنجہانی بریگیڈیئر دانیل کئی برس تک آرمی اور قومی ٹیم کے کپتان رہے جبکہ بریگیڈیئر رشید کی پاک آرمی میں بطور کپتان باسکٹ بال کی ترویج کے لئے بے شمار خدمات شامل ہیں۔ باسکٹ بال فیڈریشن کے انڈر کئی ڈویژنز میچور ٹورنامنٹ کا انعقاد کرواتی ہیں مگر سپورٹس بورڈز کے عدم مالی تعاون کی بنا پر باسکٹ بال میں نیا ٹیلنٹ سامنے لانے میں دشواریاں بدستور حائل ہیں۔
باسکٹ بال کی طرح قومی سطح پر اتھلیٹکس کو بھی حکومتی سطح پر وہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی جو اس کھیل کے لئے ضروری تھی۔ طویل دوڑ، ہائی جمپ، پول واٹ، ڈسکِس تھرو، ہاف سٹیپ اینڈ جمپ، پول واٹ، جیولین تھرو اور ہرڈلز دوڑوں میں کارکردگی دکھانے والے بیشتر کھلاڑیوں کو سرے سے سہولتیں ہی دستیاب نہیں۔ صوبائی سپورٹس کنٹرول بورڈ اور پاکستان سپورٹس کنٹرول بورڈ ان کھلاڑیوں کے لئے کیا اقدامات کرتے ہیں۔ قومی کھلاڑیوں کے لئے آج بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
لندن میں منعقدہ حالیہ عالمی اتھلیٹکس مقابلوں میں اس بار برطانوی پاکستانیوں کی خصوصی دلچسپی کا ایک پہلو پاکستانی اتھلیٹ محبوب علی بھی تھے جنہوں نے 4 سو میٹر دوڑ میں پاکستان کی نمائندگی کی مگر فائنل میں وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے کسی پاکستانی اتھلیٹ کے لئے عالمی مقابلے میں ملک کی نمائندگی ایک بڑا اعزاز تھا مگر افسوس! کہ محبوب علی کو پاکستانی میڈیا بھی وہ پذیرائی نہ دے پایا جو بحیثیت قومی اتھلیٹ اسکا حق تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ انتھک محنت اور کامیابی کے جذبہ سے ہمکنار ان عالمی مقابلوں میں حصہ لینے والے اس نوجوان اتھلیٹ کو پاکستانی اخبارات اور ٹی وی کے وہ نمائندے جو کرکٹ میچوں کے دوران کوریج کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے۔ محبوب علی کی عالمی مقابلوں میں شمولیت پر اسکی حوصلہ افزائی کرتے۔ محبوب علی کا کس ادارے سے تعلق ہے مجھے معلوم نہیں تاہم اسکی سپرٹ اور سپرنٹ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ حکومت کی تھوڑی سی سرپرستی سے اتھلیٹکس میں یہ اپنا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رکھ سکتا ہے۔
”طویل دوڑ“ کے بین الاقوامی شہرت یافتہ 34 سالہ برطانوی اتھلیٹ ”محمد فرح“ جنہیں برطانوی حکومت کی جانب سے SIR کا خطاب بھی مل چکا ہے نے یہ اعلان کر دیا کہ اس ہفتے زیورچ میں ہونے والی 5 ہزار میٹر کی دوڑ انکی آخری دوڑ ہو گی ۔لوگ اور اتھلیٹکس کے شائقین اسے ”مو“ نہیں بلکہ ”محمد“ کے نام سے پکاریں۔ طویل دوڑ میں طویل عرصہ تک حکمرانی کرنے والے اس نامور اتھلیٹ کو اب”محمد“ کہلوانے کا خیال کیونکر آیا؟؟ اس پر پھر کبھی سہی!
٭....٭....٭....٭....٭....٭....٭