”ہم کالم کتابیں نہیں، جنازے پڑھتے ہیں“
ڈاکٹر بابر اعوان ذہین فطین وکیل ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان کی شخصیت گولڑہ شریف سے بے پایاں محبت، عقیدت اور ارادت میں گندھی ہوئی ہے۔ عشق رسول کی سرمستی انہیں وہیں سے میسر آئی۔ان کے پیر جی کا یہ اکیلا مصرع سیرت کی کئی کتابوں پر بھاری ہے: ’کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ، گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں‘۔ سوچتا ہوں۔ عالم ارواح میں پہلے نعت گو شاعر حضرت حسان بن ثابت نے انہیں اس مصرع کی داد کیسے دی ہو گی؟ ڈاکٹر بابر اعوان کالم لکھتے ہیں۔ ان کے کالم انہی کی طرح زندگی و معنی سے بھرپور ہیں۔انہوں نے 80ءکی دہائی کے شروع میں روزنامہ ”نوائے وقت“ سے لکھنے کی ابتداءکی۔ جتنے چراغ ہیں اسی محفل سے آئے ہیں۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر بابر اعوان تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں پرنٹ میڈیا کا ذکر لے بیٹھے۔ انہوں نے تبدیلی کے قافلہ سالار عمران خان کو بتایا کہ ہمارا پرنٹ میڈیا کا مورچہ بہت کمزور ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی کہ تحریک انصاف کی قیادت کا اردو کالم نگاروں سے رابطہ بہت کم ہے۔ڈاکٹر صاحب عمران خان کو ضرور بتائیں۔ غزوہ احد کا سبق یہی ہے کہ جنگ میں کوئی مورچہ خالی نہ چھوڑا جائے۔ کسی ایک مورچہ کے خالی رہ جانے کی صورت میں جیتی ہوئی جنگ شکست میں ڈھل سکتی ہے۔ احد پہاڑ کی ایک گھاٹی پر متعین مجاہدین جیت دیکھتے ہوئے مال غنیمت کی طرف جھپٹ پڑے۔ گھاٹی خالی رہ گئی۔ ان دنوں خالد بن ولید ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔وہ کفار کے لشکر میں شامل تھے۔جونہی انہیں گھاٹی خالی دکھائی دی، وہ موقع ضائع کئے بغیر اس گھاٹی سے حملہ آور ہو گئے۔ تب فتح ہار میں بدل گئی۔ الیکٹرونک میڈیا نئے زمانے کی بہار ہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہے۔ لیکن یہ اہمیت یہ معنی لیکر نہیں آئی کہ پرنٹ میڈیا غیر اہم ہو گیاہے۔ پرنٹ میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ بدستور ہے۔ یہ اہمیت افسانہ نگار آغا بابر اپنی سوانح عمری ”خدو خال“ میں یوں لکھتے ہیں: ”لکھا ہوا دل میں اتر جاتا ہے۔ بولا ہوا ‘ہوا میں تحلیل ہو جائے۔ طاقت ہے تو لکھے ہوئے میں ہے۔ لکھے میں دنیا آباد، سدا بہار لکھا لفظ۔ پہلا محبت نامہ پڑھنے کو ہی دل بار بار کیوں چاہے؟ لکھے لفظوں کی صبح بہار دیکھنے کو جی چاہتا ہے“۔ یہ سچ ہے کہ کچھ تحریروں کا ہر لفظ ایک عمر کے جذب کئے ہوئے علم کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پھر کچھ لکھنے والے ایسے دوانے بھی ہیں جو ٹھکانے کی بات کرتے ہیں۔ قوموں کو اپنے سفر میں ایسے نشان منزل صراط مستقیم سے بھٹکنے نہیں دیتے۔ یہ تحریریں ایک قومی اثاثہ ہوتی ہیں۔ قومیں ان میں رہنمائی ڈھونڈتی ہیں۔ آغا بابر نے چھاپہ خانہ کے مرحلہ سے گزر کر صفحات پر ظاہر ہونے والے حروف کی حرمت بیان کر دی۔ ادھر لندن میں مقیم اردو کے شاعر ساقی فاروقی کالم نگاری کو ادب سے گھٹیا درجے کی شے قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ کالم نگاری جلدی میں لکھا ہوا ادب ہے۔ لیکن ساقی فاروقی اخباری کالموں کو ادب سے نچلا درجہ دینے کی دیگر وجوہ بیان کرتے ہیں۔ ساقی فاروقی کے مطابق اخباری کالم تین چھلنیوں سے چھن کر اپنے قارئین تک پہنچتا ہے۔ پہلی چھلنی ایڈیٹر کی خوشنودی ہے۔ دوسری مالک اخبار کی مرضی اور تیسری اخبار کی پالیسی ہوتی ہے۔ پھر سب سے اہم اخبار کی بقاءکا مسئلہ ہے کہ اس کی اشاعت مسلسل ممکن رہے۔ یہ تسلسل اشتہاری پارٹیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ بادل نخواستہ ان کی ضروریات اور مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایک کالم نگار ان تینوں چھلنیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی بات کہنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی وہ کامیاب رہتا ہے اور کبھی ناکام۔ ووٹ کی حرمت اور تقدس ایک الگ چیز ہے۔ قانون کا احترام کسی اور شے کا نام ہے۔ میاں نواز شریف اپنی اغراض کیلئے انہیں آپس میں گڈ مڈ کر رہے ہیں۔ ووٹر اپنے ووٹ سے منتخب کئے ہوئے اپنے نمائندے کو کرپشن کا حق ہرگز نہیں دیتا۔ اسی طرح پیر صاحب پگاڑا شریف کے حُر اور ایک سیاسی کارکن میں دن رات کا فرق ہوتا ہے۔ اب کارکنوں نے انتخابی ٹکٹ کی ہوس میں اپنے لیڈر کی گاڑی کی ”چوماچاٹی“ میں یہ فرق مٹا دیا ہے۔ ہماری ساری سیاست ترقیاتی فنڈ اور کمیشن کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ کوئی سرگرم سیاسی کارکن محض کارکن نہیں رہنا چاہتا۔ وہ اسمبلی میں جانا چاہتا ہے۔ وہ ریاست اور حکومت میں فرق نہیں جانتا۔ اسے قانون اور آئین میں فرق کا بالکل پتہ نہیں۔ لیکن وہ یہ ضرور جانتا ہے کہ ایک ایم این اے اور ایم پی اے اپنے حلقوں کے ٹھیکوں میں کتنی کمیشن لیتے ہیں۔ ایک کالم نگار ان تمام پہلوﺅں کی نشاندہی کرتا رہتا ہے۔ پرسوں ترسوں لاہور کینٹ میں مسکراتی ہوئی باوقار ڈاکٹر زرقا نے اپنے گھر چائے پر چند لکھنے پڑھنے والے لوگ بلا رکھے تھے۔ محترمہ پنجاب تحریک انصاف کی ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات ہیں، اپنے عہدے کی ذمہ داریوں سے خوب آگاہ۔ کیا قبولیت کی گھڑی تھی جب شاعر لاہور دعاگو ہوئے:
مِرے لاہور پر بھی اک نظر کر
تیرا مکہ رہے آباد مولا
اب شعیب بن عزیز کالاہور اتنا آباد ہے کہ اس کی آبادی میں ہی اس کی ساری بربادی ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا۔ ’اپنے ضعف کے باعث میں اتنی دیر میں اٹھتا ہوں جتنی دیر میں قد آدم دیوار اٹھتی ہے‘۔ ان دنوں لاہور میں ہوتے تو ضرور لکھتے۔ میاں اک محلے سے دوسرے محلے میں پہنچنے تک عمر بیت جاتی ہے۔ ڈاکٹر زرقا کا فون تھا۔آپ ابھی تک نہیں پہنچے؟ ادھر ہم ان کے گھر کے پڑوس میں رش میں پھنسے۔ اللہ کا شکر کہ کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے چائے سے پہلے ان کے گھر پہنچ گئے۔ ڈرائنگ روم میں بہت سے دوست نظر آئے۔ عمران خان کے چیف آف سٹاف نعیم الحق سے پوچھا گیا۔ وزیراعظم ہاﺅس سے نکلتے ہی میاں نواز شریف کو بے گھر، غریب اور کچہریوں میں خجل خوار لوگ یاد آ گئے ہیں۔ آپ کو ان کی یاد کب ستائے گی؟ نعیم الحق کا جواب لکھنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ بڑے لوگ کہاں لاجواب ہوتے ہیں؟ نعیم الحق مجھے بتانے لگے کہ میں ملک بھر میں تحریک انصاف کا اکیلا بانی ممبر رہ گیا ہوں۔ دو تین اصحاب اوربھی تھے، وہ بیرون ممالک سیٹل ہو گئے ہیں۔ انہیںاس پر فخر تھا کہ انہوں نے تحریک انصاف کے روز اول عمران خان کا ہاتھ پکڑا۔ پھر چھوڑا نہیں۔ مجھے غبار خاطر سے ایک جملہ یاد آگیا۔ ”خلوص سدا بہار ہے اور اس ہنگامہ ہستی میں یہی ایک نعمت ابدی ہے“۔ میں سوچتا ہوں کہ ہماری نسل کے بعد کون مولانا ابو الکلام آزاد کی ”غبار خاطر“ پڑھے گا؟ نعیم الحق اپنے تحریک انصاف کے اکیلے بانی ممبر رہ جانے پر اترائےں نہیں۔ تحریک انصاف میں ایک دوسرا بانی رکن بھی موجود ہے۔ یہ گوجرانوالہ کے چوہدری عنصر نت ہیں۔ انہیں نعیم الحق بھی بھول گئے۔ نعیم الحق سے ملاقات کی خوشی میں ہم بھی انہیں بھول گئے۔ لیکن گوجرانوالہ اپنے سپوت کا یہ اعزاز بھولنے کو تیار نہیں۔ ایک کونے میں نوجوان کالم نگار مبین سلطان تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات صمصام بخاری سے اپنے کالم نہ پڑھنے کی شکایت کر رہا تھا۔ حضرت کرمانوالہ شریف کے اس پیرزادہ نے جھٹ سے اپنی غلطی تسلیم کر کے اس سے پرے ہٹ جانے میں عافیت محسوس کی۔ ان کی جگہ راولپنڈی والے شیخ رشید احمد ہوتے۔ تو ڈٹ جاتے اور برملا کہتے: ”ان دنوں ہم کالم کتابیں نہیں پڑھتے۔ صرف جنازے پڑھتے ہیں“۔