چیئرمین سینٹ کی تجویز پر مکالمہ ہوا تو حصہ بنیں گے‘ این آر فوج نے نہیں دینا‘ سول ملٹری ایک ہیں: فوجی ترجمان
راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ+ سٹاف رپورٹر) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میاں نواز شریف کو این آر او دینے کے سوال پر کہا ہے کہ این آر او ایک سیاسی سوال ہے‘ فوج نے کسی این آر او کی منظوری نہیں دینی۔ فوج نظام کا حصہ ہے‘ چیئرمین سینٹ کی تجویز پر کوئی مکالمہ ہوا تو فوج اس کا حصہ بنے گی۔ فوج نے فاٹا اصلاحات کی مخالفت نہیں کی ہے‘ صرف سکیورٹی پر سفارشات دی ہیں۔ اس سوال پر کہ تاثر دیا جارہا ہے سول ملٹری تعلقات آئیڈیل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سویلین اور ملٹری میں کوئی تفریق نہیں‘ دونوں ایک ہیں۔کبھی اختلافات ہوں بھی تو اسے سول ملٹری تعلقات سے نتھی نہ کریں۔ فنکشنل معاملات میں اختلاف رائے ہوتا ہے جیسا کہ خونی رشتوں میں ہوتا ہے۔ سول ملٹری تعلقات پر انہوں نے کہا کہ میرا تعلق ملٹری سے ہے، آپ سویلین ہو، کیا ہمارے تعلقات میں خرابی ہے۔ میں جس بیک گرائونڈ سے ہوں میرے علاوہ سب سویلین ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد میں بھی سویلین ہو جائوں گا۔ سویلین جس ماحول میں رہتے ہیں‘ وہاں سیاست ہے اور الزام تراشی ہے۔ کبھی اختلافات ہوں بھی تو اسے سول ملٹری تعلقات سے نتھی نہ کریں۔ اس سوال پر کہ سوشل میڈیا میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف سے ایک نئے این آر او کی باتیں ہو رہی ہیں، کیا میاں نوازشریف کو این آر او دیا جائے گا؟۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ این آر او ایک سیاسی سوال ہے۔ فوج نے کسی این آر او کی منظوری نہیں دینی۔ بلوچستان میں پاکستانی پرچم جلانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جو پاکستان کا پرچم جلاتا ہے کیا وہ پاکستانی ہے؟ ہم سب جانتے ہیں پرچم کس نے جلایا اور کس کی ایماء پر جلایا گیا۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ارفع کریم ٹاور کے قریب ہونے والے دھماکے کے اصل ہدف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن عین موقع پر دہشت گردوں نے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا‘ اس دہشت گردانہ حملے کے تمام افراد کو ماسٹر مائنڈ سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ارفع کریم ٹاور کے قریب ہونے والے بم دھماکے کی پہلے سے اطلاع تھی۔ گرفتار دہشت گردوں نے شہر کے باقی حصوں میں بھی دہشت گردی کے منصوبے بنائے ہوئے تھے۔ میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ خیبر فور آپریشن مکمل ہوگیا ہے۔ آپریشن خیبر فور میں 250 مربع کلومیٹر کا علاقہ کلیئر کرا لیا گیا۔ راجگال اور وادی شوال میں زمینی اہداف حاصل کرلیے گئے۔ خیبر4 آپریشن 15جولائی کو شروع کیا گیا تھا۔ آپریشن بہت مشکل تھا، اس میں دو جوان شہید اور 6زخمی ہوئے۔ خیبر ویلی میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ آپریشن کے دوران 52دہشت گرد ہلاک ‘ 31 زخمی‘ ایک گرفتار جبکہ 4نے خود کو حوالے کیا۔ آئی ای ڈی بنانے کے ایک مواد پر میڈ ان انڈیا کا لیبل ہے۔ علاقے میں 120 ٹن راشن فراہم کیا گیا۔ آپریشن میں تیار آئی ای ڈیز بھی برآمد ہوئیں۔ آپریشن کے دوران سینکڑوں بارودی سرنگیں ناکارہ بنائی گئیں۔ راجگال وادی میں 41 آپریشن کیلئے افغان سکیورٹی فورسز سے بھی تعاون کیا گیا۔ اب تک 124ہزار آپریشن پورے پاکستان میں کرچکے ہیں۔کراچی میں 2017ء میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا۔ پولیس مضبوط ہوگی تو سٹریٹ کرائم میں وقت کے ساتھ کمی آئے گی۔ پنجاب میں انٹیلی جنس اطلاعات پر 1728 آپریشن کیے گئے۔ خیبر فور آپریشن میں افغان فورسز سے مشاورت بھی کی گئی۔ آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں3300 آپریشن کیے گئے۔ فاٹا میں نوجوانوں کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ فاٹا کے بہت سے کیڈٹس پاک فوج میں تربیت لے رہے ہیں۔ فاٹا میں 147 سکول‘ 17 ہیلتھ یونٹس‘ 27 مساجد قائم کی گئی ہیں۔ آپریشن شروع ہوا تو فاٹا کے بہت سے لوگ آئی ڈی پیز بن گئے۔ 95فیصد آئی ڈی پیز اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں۔ راولپنڈی میں 2013ء کے دوران مسجد پر حملے کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ راولپنڈی میں مسجد پر حملہ کرنے والے اسی مسلک کے تھے۔ راولپنڈی میں مسجد کو آگ لگانے والے فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتے تھے۔ پاکستان نے اپنی طرف سے بارڈر مینجمنٹ مضبوط کی ہے۔ ملک کے ہر حصے میں قومی پرچم لہرایا، وہاں بھی لہرایا جہاں لوگ بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ واہگہ بارڈر پر سب سے بڑا پرچم لہرایا ہے۔ قومی پرچم سے جاسوسی کا بھارتی الزام غلط ہے۔ ہم نے یوم آزادی پر جنوبی ایشیا میں سب سے بلند پرچم لہرایا۔ بھارت نے الزام لگایا ہے کہ بلند پرچم انٹیلی جنس معلومات کیلئے لگایا گیا۔ لیکن واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم جھنڈے کے محتاج نہیں‘ بھارت کے اندر سے بھی خبر نکال لاتے ہیں۔ 59 غیرمسلم پاکستانیوں نے دفاع کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ملٹری کورٹس میں کیسز صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت فوجی عدالتوں کو کیس بھیجتی ہے۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور سب مل کر پاکستان کا دفاع کریں گے۔ جنرل مشرف سیاسی بیان ایک سیاسی رہنما کے طور پر دیتے ہیں۔ پرویزمشرف دفاع سے متعلق بیان اپنے تجربے کی بنا پر دیتے ہیں۔ پرویزمشرف ہمارے آرمی چیف رہے ہیں‘ 40سال تک فوج میں خدمات دی ہیں۔ جو بھی پاکستان میں ہے‘ اس کا کوئی بھی مذہب ہو‘ پاکستان سب کا ہے۔ کئی غیر ملکیوں نے پاکستانیوں کیلئے کام کیا۔ اس وقت پاکستان میں جتنے بھی علاقے ہیں سب کلیئر کرا لیے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی انفراسٹرکچر نہیں ہے۔ ہم نے سکیورٹی تناظر میں فاٹا ریفارمز پر اپنی سفارشات دیدی تھیں۔ فاٹا ریفارمز ہونی چاہئیں تاکہ ان لوگوں کو محسوس ہو کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں۔ آرمی کا کوئی پوائنٹ نہیں تھا کہ فاٹا ریفارمز ہونی چاہئیں یا نہیں۔ فاٹا میں اصلاحات بہت ضروری ہیں۔ سیاسی نظام میں اس کا طریق کار ہوتا ہے۔ اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن اسے سول ملٹری تعلقات سے نہ جوڑیں۔ ٹرمپ کی پاکستان پالیسی سے متعلق بیان پر تبصرہ دفتر خارجہ کرے گا۔ ضرب عضب میں شمالی وزیرستان میں بلاامتیاز آپریشن کیا گیا۔ وفاقی حکومت کے فیصلوں کے مطابق دہشت گردوں کے کیس کو آگے چلائیں گے۔ کسی بھی آئی ڈی پی کو زبردستی واپس نہیں بھیجا گیا۔ کسی این آر او کی آرمی نے تصدیق کرنی ہو ایسی کوئی بات نہیں۔ سیاسی سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں، چلتی رہنی چاہئیں۔ سول ملٹری کی کوئی تقسیم نہیں‘ سب ایک ہیں۔ سول ملٹری تعلقات میں کوئی اختلاف نہیں‘ ہم ایک پیج پر ہیں۔ کشمیر میں جو بھی تحریک ہو بھارت اسے دہشت گردی قرار دے دیتا ہے۔ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں ہے اور وہاں کی تحریک آزادی کی ہے۔ امریکی وفود کو واضح بتایا گیا کہ پاکستان میں بلاامتیاز آپریشن کیے گئے۔ نیوز لیکس کے سوال پر کہا جو بھی انکوائری گورنمنٹ کھولنا چاہتی ہے یہ اس کا حق ہے۔ نیوز لیکس انکوائری رپورٹ منظرعام پر لانے کا اختیار حکومت کا ہے۔ جو بھی چاہتا ہے نیوز لیکس انکوائری منظرعام پرآئے وہ حکومت سے درخواست کرے۔ صحافی کے سوال پر کہ چیئرمین سینٹ کی ڈائیلاگ کی تجویز پر کیا فوج حصہ بنے گی؟ انہوں نے کہا کہ ڈائیلاگ سے متعلق چیئرمین سینٹ کا بیان میڈیا میں آیا ہے۔ فوج ریاست کے ایک ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ ملک میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے ملتی اور الگ ہوتی رہتی ہیں۔ کسی سیاسی معاملے سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔حقائق جاننا عوام کا حق ہے۔ آج کے آرمی چیف جنرل باجوہ ہیں‘ فوج میں ان ہی کی پالیسی چلتی ہے۔راولپنڈی مسجد حملہ کا نیٹ ورک این ڈی ایس اور کلبھوشن سے ملتا ہے۔علاوہ ازیں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ اپنی صلاحیت کے مطابق ہم نے مرحلہ وار کلیئرنس کا کام شروع کیا۔ پانچ ایجنسیز 2007ء اور 2008ء میں دہشت گردی کی لپیٹ میں تھیں۔ فاٹا ایجنسیز کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا عمل مرحلہ وار شروع کیا۔ باجوڑ کو دو بار دہشتگردوں سے پاک کرنے کا آپریشن کیا۔ اعتماد ہے کہ دہشت گرد دوبارہ سر نہیں اٹھا سکیں گے۔ افغانستان میں دہشت گردی بہت زیادہ ہے۔ کراس بارڈر دہشتگردی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پرابلم دونوں طرف سے تھی۔ افغانستان میں کسی بھی وجہ سے کراس بارڈر دہشتگردی کو ختم کرنے کی کارروائی نہیں ہو رہی لیکن ہمیں اپنی طرف سے کام کرنا تھا۔ افغان فورسز کیلئے ہماری طرف سے مکمل رابطہ اور تعاون رہا‘ افغانستان میں مستقل امن کی ذمہ داری افغان فورسز کی ہے۔ افغانستان میں امن کیلئے تعاون کریں گے۔ جو علاقے دہشتگردوں سے صاف کرائے گئے یہ مستقل بنیادوں پر ہیں۔ افغانستان میں امن کیلئے جو کام کرنے تھے وہ ہم نے اپنی طرف سے مکمل کرلئے ہیں۔ باجوڑ‘ مہمند ایجنسی اور سوات کو مرحلہ وار کلیئر کیا۔ پاک فوج‘ دیگر فورسز نے پاک افغان سرحد پر دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کیں۔ پاکستان میں اب کسی دہشتگرد تنظیم کی پناہ گاہ اور تربیتی مرکز نہیں۔ سی ٹی ڈی سمیت تمام اداروں نے دہشت گردوں کیخلاف مل کر کام کیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ فاٹا سمیت پاکستان کے کسی بھی حصے میں انٹرنیشنل کرکٹ ہو سکتی ہے۔ ہم یونس خان سٹیڈیم میں مکمل سکیورٹی کے تحت میچ کرانے کو تیار ہیں۔ ٹی ٹی پی باجوڑ گروپ کے دہشتگردوں نے راولپنڈی کی مسجد کو جلایا۔ ان کی سرپرستی سرحد پار سے کی جا رہی تھی۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں۔