قومی اسمبلی: شیخ آفتاب‘ شفقت محمود میں جھڑپ‘ ہنگامہ: انتخابی اصلاحات بل کی آج منظوری کیلئے قرارداد
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ این این آئی) وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب اور تحریک انصاف کے رہنماء شفقت محمود کے درمیان قومی اسمبلی میں شدید جھڑپ ہوئی جبکہ شیخ آفتاب کے خطاب پر برہم ہوکر تحریک انصاف کے دیگر ارکان بھی نشستوں پر کھڑے ہوگئے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد بھی ایک بار مشتعل ہوکر نشست پر کھڑے ہوئے بعدازاں وفاقی وزیر شیخ آفتاب کو سمجھانے کیلئے ان کی نشست پر گئے۔ مسلم لیگی ارکان بھی شفقت محمود اور تحریک انصاف کے دوسرے ارکان پر جملے کستے رہے۔ قومی اسمبلی میں تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے ایک خبر کی جانب توجہ مبذول کرائی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومتی ارکان کی ترقیاتی سکیموں کے لئے 30 ارب روپے دیئے گئے ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا اخبارات کی خبر ہے 30 ارب روپے ایم این ایز کو دیئے گئے ہیں۔ حکومت بتائے یہ کون سے ایم این ایز ہیں ورنہ ہم احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ حکومت غیر سنجیدہ ہوگئی ہے تو ہم بھی غیر سنجیدہ ہوں گے۔ ہم تماشا نہیں بنانا چاہتے ہمیں جواب چاہیے۔ وفاقی وزیر شیخ آفتاب نے کہا میاں نواز شریف کا ویژن ہے۔ پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ترقیاتی پیکج ہے جس میں چھوٹی سکیمیں ہیں۔ اس میں ایک پیکج ہے ۔ اُس میں علاقے کے معززین کو شامل کیا گیا ہے۔ ترقیاتی پیکج شروع ہوا تو تمام صوبوں کو خط لکھے کہ صوبائی حکومتیں بھی اس پروگرام میں شامل ہوجائیں اور اپنا حصہ ڈالیں۔ اس خط کا جواب پنجاب اور بلوچستان سے آیا۔ سندھ اور کے پی کے نے حصہ نہیں ڈالا۔ شیخ آفتاب کے اظہار خیال کے دوران شفقت محمود اور دوسرے ارکان لقمے دیتے رہے جس پر شیخ آفتاب شدید برہم ہوگئے اور کہا کہ ہم شرافت سے کام لیتے ہیں۔ میں ان کے سوالات کے جواب دینے کا پابند نہیں ۔ یہ کونسا طریقہ ہے جو جواب دینا تھا وہ دیدیا۔ بڑا برداشت کررہے ہیں۔ یہ رویہ ناقابل برداشت ہے۔ اس پر ایوان میں شور بلند ہوا۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی شور مچانے لگے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے شیخ آفتاب کو جاکر بٹھایا۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا وزیر جواب دے رہے ہیں ان کی بات میں مداخلت نہ کی جائے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور اپنی بات مکمل نہ کرسکے۔ بعدازاں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایوان میں آئے تو اپوزیشن لیڈر نے ان کو اخبار بھی دکھایا۔وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کا بل حرف آخر نہیں ۔ اس کا جائزہ لیا جاتا رہے گا اور اس کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ہم اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے آنے والی مزید 44 ترامیم کو بل میں سمو دیا ہے۔ کمیٹی کی 129 میٹنگز ہوئیں مگر اس وقت کوئی ترمیم نہیں لائی گئی اور اب اپوزیشن 105 ترامیم لے آئی ہے کوشش ہے کہ بل اتفاق رائے سے منظور ہو۔ وفاقی وزیر قانون نے ان خیالات کا اظہار قومی اسمبلی میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق قوانین کو یکجا کرنے اور مربوط کرنے کے بل پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا۔ ایوان نے ایک قرارداد کے ذریعہ بل کو فوری طور پر زیرغور لانے کی منظوری دی جبکہ آج منگل کو نجی کارروائی کا دن معطل کرایا گیا ہے اور توقع ہے قومی اسمبلی آج انتخابی اصلاحات کے بل کی منظوری دے گی۔ اس سے قبل متعدد ارکان اسمبلی نے بل پر بحث میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بیلٹ پیپر کی واٹر مارکنگ کی تجویز دی ہے جو اچھی ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ عبدالقادر بلوچ نے کہا میرا حلقہ 3 اضلاع پر مشتمل ہے۔ فاروق ستار نے کہا ہمارے انتخابی اصلاحات پر تحفظات ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت میں 500 خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کو ختم کیا جائے۔ شازیہ مری نے کہا آر اوز کے کردار کو مانیٹر کیا جائے۔ بیلٹ پیپر کو واٹر مارک کیا جائے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ووٹنگ کے عمل کو انسانی غلطی سے نکالا جائے۔ اس میں بے ایمانی ہوتی ہے۔ غلام احمد بلور نے کہا جب تک بائیو میٹرک سسٹم نہیں لایا جاتا‘ الیکشن کے منصفانہ ہونے کی تسلی نہیں ہو سکتی۔ این این آئی کے مطابق ارکان کو فنڈز کے اجراء سے متعلق وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کے جواب پر ایوان ہنگامہ آرائی کا شکار ہو گیا۔ اس موقع پر بعض ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ شیخ آفتاب احمد نے خورشید شاہ کے نکتہ اعتراض کے جواب میں کہا ترقیاتی پیکیج پر پنجاب اور بلوچستان نے مثبت رسپانس دیا جبکہ سندھ اور خیبر پی کے نے مثبت رسپانس نہیں دیا۔ اس پر تحریک انصاف کے شفقت محمود کھڑے ہو گئے اور کہا آپ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ اس کے ساتھ تحریک انصاف کے دیگر ارکان بھی کھڑے ہو گئے اور بیک وقت بولنا شروع کر دیا۔ انہوں نے تحریک انصاف کے ارکان سے کہا بیٹھ جائیں اس پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کھڑے ہو گئے اور کہا یہ ایوان کے باہر اداروں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں مگر ارکان اسمبلی کو ڈرایا نہیں جا سکتا۔ کوئی وزیرکسی رکن اسمبلی کو زبردستی بیٹھنے کیلئے نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے کہا یہ اپنا وزیراعظم گنوا بیٹھے ہیں مگر پھر بھی گردن سے سریا نہیں نکل رہا۔ انہوں نے وزراء سے کہا تم لوگوں کی وجہ سے آج نوازشریف گھر بیٹھا ہے اور ان کی ساری فیملی پریشانی میں ہے۔ ابھی بھی تمہارا دل نہیں بھرا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیر پارلیمانی امور نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک منظور کر لی گئی۔ انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے باعث آج کے اجلاس کا ایجنڈا ملتوی کیا گیا۔ آئی این پی کے مطابق وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے تجویز دی کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستیں 17 سے بڑھا کر 31 کی جائیں اور بلوچستان کے ہر ضلع کیلئے ایک نشست مختص کی جائے۔ بلوچستان میں حلقے بہت بڑے بنائے گئے ہیں۔ اے پی پی ے مطابق سینٹ کے اجلاس میں شریک ہونے کے بعد وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے اور اجلاس ختم ہونے تک ایوان میں موجود رہے جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس آج صبح 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔