• news
  • image

ساونڈ سسٹم ایکٹ سے گلوکاروں پر روزگار کے دروازے بند ہو گئے ہیں ملتان کے لوک گلوکار ساجد ملتانی سے انٹرویو

سلیم ناز
nzasaleem80@yahoo.com

موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے لیکن ساونڈ ایکٹ کے نفاذ کی وجہ سے یہ غذا ”بوسیدہ“ ہونے لگی ہے جب سے ساونڈ  سسٹم پر پابندی لگی ہے، گلوکاروں کےلئے روزگار کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ملتان کے لوک گلوکار ساجد ملتانی نے ایک ملاقات میں کیا۔ انہوں نے کہا شادی کے موقع پر موسیقی کی نشست ہو یا کوئی محفل، علاقائی پولیس رنگ میں بھنگ ڈال دیتی ہے۔ میزبانوں کے ساتھ گلوکاروں اور سازندوں کو اٹھا کر لے جاتی ہے اور پرچہ درج کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتی۔ ایسا واقعہ ہماری لوکل فنکارہ کوثر جاپانی کے ساتھ گزشتہ دنوں ہوا جنہیں اگلے روز ضمانتیں کرانا پڑیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اگر کوئی بااثر اور بااختیار محفل موسیقی ترتیب دے تو یہاں ساونڈ  ایکٹ کا قانون خاموش ہو جاتا ہے۔ ساجد ملتانی کو اﷲ تعالیٰ نے سُر کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ سٹیج پر گانے کے دوران پرفارمنس سے سامعین جھومنے لگتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں کہنے لگے انسان کی تین مادی ضروریات لباس، رہائش اور خوراک کے بعد اس کا نمبر آتا ہے۔ موسیقی دن بھرکی تھکن کو دور کرکے سکون کی فراہمی کا باعث بنتی ہے۔ انسانی طبیعت پر موسیقی جو اثر چھوڑتی ہے وہ کسی اور فن کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے کہا فن موسیقی میں سُر کا رچاو اور لے کی پختگی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ موسیقی میں ریاض بہت ضروری ہے۔ بعض گلوکار اس کو اہمیت نہیں دیتے جس کی وجہ سے ان کے سُر کا سفر زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہ پاتا۔ اس کے بعد تو مجھے بھول جا اور میں تجھے بھول جاوں والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا علاقائی موسیقی میں اگرچہ لوک گلوکاروں کو مواقع میسر آتے ہیں لیکن ان کی آواز میں رچاو اس قدر ہوتا ہے کہ وہ کم وقت میں ہی دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ ساجد ملتانی نے بھی اپنی خوبصورت آواز کی بدولت موسیقی کی دنیا میں بہت جلد مقام پیدا کر لیا ہے۔ ان کے اب تک 8 والیم (ویڈیو) اور 11 والیم (آڈیو) مارکیٹ میں آ چکے ہیں۔ کہنے لگے عوام تک رسائی حاصل کرنے کےلئے والیم ایک موثر ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا ان والیم میں شامل میرے تمام گیتوں نے شہرت حاصل کی ہے اور میری پہچان بنے ہیں۔ انہوں نے بتایا مجھے گانے کا شوق بچپن سے ہی تھا اکثر شادی کی تقریب میں گانے گایا کرتا تھا۔ ایک محفل میں ڈی آئی خان کے معروف گلوکار استاد نعیم فاروقی موجود تھے۔ انہوں نے میری پرفارمنس دیکھتے ہوئے مجھے روشن مستقبل کی نوید سنائی اور میری باقاعدہ تربیت کی۔ ان کے بعد میں نے استاد غلام عباس سے بھی موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا فن کی ترقی کےلئے قائم کئے گئے سرکاری ادارے اپنے فرائض اور مقاصد سے عاری ہو چکے ہیں۔ ملتان آرٹس کونسل میں موسیقی کی باقاعدہ تربیت کا کوئی اہتمام نہیں۔ ریڈیو پاکستان ملتان فنڈز کی عدم دستیابی سے ”بھوکا“ ہوچکا ہے۔ پی ٹی وی ملتان سنٹر کے قیام سے توقع تھی کہ ملتان کی آوازیں ملکی سطح پر پذیرائی حاصل کریں گی لیکن یہاں بھی بنیادی سہولتوں اور فنڈز کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش ہے اگر پی ٹی وی کے کسی شعبے میں کام ہو رہا ہے تو وہاں بھی دوستوں اور احباب کو نوازنے کا کام جاری ہے۔ یہی صورتحال ریڈیو پاکستان ملتان کی ہے۔ ان سرکاری اداروں نے فنکاروںکو تنگدست بنا دیا ہے حالانکہ ماضی میں ریڈیو پاکستان ملتان سے ہی اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے فنکاروں نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ساونڈ  سسٹم ایکٹ کا خاتمہ کیا جائے تاکہ موسیقی کی محفلیں دوبارہ سے شروع ہوں اور گلوکاروں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن