”ریڈیو پاکستان کیلئے سنٹرل پروڈکشن یونٹ (سی پی یو) کی خدمات“
شکیل گیلانی
ریڈیو پاکستان کے شعبہ موسیقی سنٹرل پروڈکشن یونٹ (سی پی یو) کی ایک خاص اور اہم تاریخی اہمیت ہے یہشعبہ15 فروری 1973ءکو قائم کیا گیا۔ اس ادارے کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد غزل، گیت، نیم کلاسیکل گلوکاروں، سازندوں، موسیقاروں اور شاعروں کا تعارف و ترقی، حوصلہ افزائی، انکی فنی صلاحیتوں کا اعتراف اور ملک کیلئے ہمہ وقت بہترین ٹیلنٹ یعنی نئے کام کرنے والوں کی تلاش ہے جبکہ دوسرا مقصد میدان موسیقی میں ہمسایہ ملک بھارت کی اجارہ داری کا بین الاقوامی سطح پر خاتمہ کرنا اور مدلل جواب دینا بھی ہے۔ ریڈیو پاکستان کے اس وقت کے ذمے داران جن میں سید اجلال حیدر زیدی، سید سلیم گیلانی اور خواجہ شاہد حسین تھے نے ریڈیو پاکستان لاہور کی بلڈنگ کی مغربی جانب معیاری موسیقی کے فروغ کیلئے سنٹرل پروڈکشن یونٹ (سی پی یو) جیساشعبہقائم کیا اور چودھری بشیر احمد کو اس کا پہلا یونٹ ہیڈ ہونے کا اعزاز بخشا۔ سی پی یو کے قیام سے پہلے موسیقی کی تمام ریکارڈنگز ریڈیو پاکستان کے لائیو (Live) سٹوڈیوز میں ہوا کرتی تھیں جس کا رزلٹ بعض اوقات اچھا نہیں ہوتا تھا۔
سی پی یو میں پاکستان کے نامور سازندوں، موسیقاروں کو مستقل ملازمتوں سے نوازا جاتا تھا اور تعیناتی گریڈ 17 کے مطابق ہوتی تھی۔ ابتدائی طور پر اس یونٹ میں 30 سازندے و موسیقار تھے موجودہ دور میں صرف 2 افراد موجود ہیں کیونکہ بیشتر لوگ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن انکی جگہ نئی تعیناتیاں نہیں ہو سکیں جس کی وجہ سے ادارے کی کارکردگی بھی اتنی فعال نہیں رہی اور اب اسکے کام اور مقدار میں بھی نمایاں فرق نظر آ رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے کہنہ مشق اور گُنی پروڈیوسر خالد اصغر، تصدق علیخان اور محمد اعظم خاں کو سی پی یو میں تعینات کیا گیا تاکہ میوزک میں ایسٹرن اور ویسٹرن امتزاج سے بہترین نغمے، غزلیں اور گیت پروڈیوس کئے جائیں۔ اسی لیے سی پی یو میں اس دور کے بہترین سٹوڈیوز بنائے گئے جن میں جدید ریکارڈنگ سسٹم لگایا گیا۔ نامور موسیقاروں اور گلوکاروں کی فنی خدمات حاصل کی گئیںاور یہ نغمات/ غزلیں ریکارڈ کر کے پی بی سی ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے سی پی یو میں بھیجے جاتے جہاں انہیں سُر، تال اور شاعری کے حوالے سے جانچ تول کر پورے پاکستان میں بھیجا جاتا ہے تاکہ گاہے بگاہے انکو نشر کیا جا سکے۔ مختلف ریڈیو سٹیشنوں کی جانب سے علاقائی زبانوں کے حوالہ سے کبھی کبھار سپیشل فیچرز بھی یہاں ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ سپیشل فیچرز کے حوالے سے بھی سی پی یو لاہور کو ایک اہمیت حاصل ہے یہاں سے اداکار محمد علی، حامد علی بیلا، موسیقار بخشی وزیر، خلیل احمد، ماسٹر عبداللہ، رشید عطرے، ماسٹر غلام حیدر، خواجہ خورشید انور، مسرور انور، منیر نیازی، حزیں قادری، خواجہ پرویز، قتیل شفائی، عقیل احمد روبی اور احمد ندیم قاسمی سمیت تقریباً تمام شاعروں، گلوکاروں، اداکاروں اور موسیقاروں کے حوالے سے اس یونٹ نے پروگرامز تیار کئے ہیں۔
سی پی یو لاہور کے کارہائے نمایاں میں ”کلام اقبال“ کی ریکارڈنگ جیسے پراجیکٹ جنہیں اقبال اکیڈمی نے بعد میں باقاعدہ معاہدے کے تحت ریڈیو پاکستان سے خرید کر اپنی لائبریریوں میں شامل کیا تاکہ اقبالیات کی ریکارڈنگ کو محفوظ رکھا جا سکے۔ سی پی یو لاہور نے یوم تکبیر، موٹروے کی افادیت، آپریشن ضرب عضب، رد الفساد، پاک چین دوستی، اسلامی ممالک کے درمیان باہمی ربط، کشمیر ڈے، لیبر ڈے، اقبال ڈے، قائداعظم ڈے، کرسمس اور آزاد جموں و کشمیر کا ترانہ، قائد کا پاکستان، میں ہوں پاکستان کے ٹائیٹل سے نغات پروڈیوس کئے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم، ورلڈ کپ، ٹی ٹونٹی کپ اور چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے خصوصی نغمات ریکارڈ اور نشر کئے۔
ریڈیو پاکستان لاہور کے اس مایہ ناز شعبہ موسیقی کا ایک بڑا نام خالد اصغر کا ہے جو یہاں پروڈیوسر، سینئر پروڈیوسر، پی ایم، ڈپٹی کنٹرولر اور بعد میں ایس ڈی لاہور ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کے دور کو ریڈیو پاکستان اور سی پی یو کا سنہری دور گردانا جاتا ہے جس میں مہدی حسن، میڈم نور جہاں، نصرت فتح علیخان، اقبال بانو، فریدہ خانم، شاہدہ پروین اور دیگر گلوکاروں کی آوازوں میں یادگار گیت، غزلیں، نغمے اور ملی نغمے ریکارڈ کئے گئے۔ ان کے بعد ڈپٹی کنٹرولر سید شہسوار حیدر جنہوں نے اپنے دور میں فریحہ پرویز، سارہ رضا، ستارہ شاہ، صائمہ جہاں اور حنا نصر اللہ و دیگر نوجوان نسل کے گلوکاروں کو متعارف کرایا۔ سی پی یو لاہور میں لگایا گیا ریکارڈنگ سسٹم وقت کے ساتھ ساتھ فرسودہ ہو چکا ہے جبکہ آجکل کے جدید دور میں موسیقی کے شوقین افراد نے اپنے گھروں میں I.Mac (آئی میک سسٹم) سٹوڈیوز بنا رکھے ہیں۔
سی پی یو لاہور ریڈیو پاکستان کا ایک تاریخی ورثہ ہے جہاں گیلری میں سجی مہان گلوکاروں کی تصاویر اور ان کی تفصیل جان کر اس ادارے کی ہمہ گیر اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے مگر دوسری طرف موجودہ زبوں حالی اوور ہالنگ کی منتظر ہے۔ ایک دور تھا جب روزانہ ایک گانے کی ریکارڈنگ ہوتی تھی جبکہ اب ماہانہ چار یا پانچ گانے ریکارڈ ہوتے ہیں امید ہے ارباب اختیار اس طرف دھیان اور توجہ فرمائیں گے۔