• news

قومی اسمبلی: انتخابی اصلاحات بل منظور‘تحریک انصاف کا واک آئوٹ‘ آرٹیکل 62 میں ترمیم کرینگے‘ نااہلی 5 سال سے کم ہونی چاہئے: حکومت

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات بل 2017 اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا، منظوری کے بعد تحریک انصاف نے ان کی ترامیم کو شامل نہ کرنے پر واک آئوٹ کر دیا۔ انتخابی اصلاحات بل اب سینٹ سے منظوری اور صدارتی توثیق پر نافذ کردیا جائے گا، بل 241 شقوں پر مشتمل ہے، اپوزیشن جماعتوں کی101ترامیم میں سے 98کو مسترد کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر کسی وقفے کے ساڑھے چھ گھنٹے تک چلتا رہا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں وزیراعظم کو پانچ سال نااہل کرنے کی ترمیمی شق کو مسترد دیا اور کہا اس میں کسی قسم کی کوئی حد نہیں ہونی چاہئے۔ اس پر مزید بحث کیلئے شق کو کمیٹی میں بھیجا جائے گا۔ کاغذات نامزدگی، سیاسی جماعتوں و امیدواروں کے انتخابی اخراجات سے متعلق 3 مختلف فارم کو بھی قانونی تحفظ مل جائے گا، نئی حکومتی ترامیم کے تحت پریزائیڈنگ افسر انتخابی نتیجہ پرمہر کے ساتھ انگوٹھا لگانے کا بھی پابند ہو گا، امیدوار اپنے حامی ووٹرز کی جانب سے کئے انتخابی اخراجات کا جواب دہ نہیں ہو گا جبکہ 62 اور 63 میں ترامیم پر مرکزی کمیٹی میں بحث کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ معمول کے ایجنڈے کو معطلی بعد بل کی شق وار منظوری حاصل کی گئی۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) کے ارکان نے ترامیم پیش کیں، متعدد پر زور نہیں دیا، بیشتر ترامیم مسترد کر دی گئیں، 3ترامیم حکومت کی طرف سے پیش کی گئیں، حکومتی ترامیم کے تحت امیدواروں کے اثاثوں،حسابات کی تفصیلات پر شبہ ہونے پرالیکشن کمیشن کو ایف بی آر اور دیگر اداروں سے ان کی چھان بین کا اختیار مل گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو مالی اور انتظامی طور پر مکمل خود مختاری حاصل ہو جائے گی، پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نگران حکومت، الیکشن کمشن کی تشکیل نو سے متعلق آئینی اور برقی بنیادوں پر انتخابی عمل کا طریقہ کار وضع نہ کرنے سے متعلق ترامیم نہ لئے جانے پر احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے۔ بل کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات سے چھ ماہ قبل لائحہ عمل مرتب کرے گا، ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی، ایک سے دوسرے پولنگ سٹیشن کا فاصلہ ایک کلومیٹر سے کم ہو گا، قومی اسمبلی امیدوار کیلئے اخراجات کی حد 40لاکھ، صوبائی کیلئے 20 لاکھ اور سینٹ کیلئے 15 لاکھ ہو گی، نئے قانون کے مطابق کاغذات نامزدگی سادہ بنایا گیا ہے، انتخابی تنازعات نمٹانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی، نگران حکومت روزانہ کے امور سر انجام دے گی اور غیر متنازعہ معاملات تک محدود رہے گی، نگران حکومت بڑی پالیسیوں سے متعلق فیصلہ نہیں کر سکے گی، خواتین کی انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت کیلئے اقدامات تجویزکئے گئے، قومی اور صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر پانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو دینا ہوںگے۔ سیاسی جماعتوں کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لینے پر پابندی ہو گی۔ قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں کورم کی کمی پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ اجلاس جب شروع ہوا تو اس وقت ایوان میں صرف 50ارکان موجود تھے جس پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے وزرا کی عدم موجودگی کی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں کورم کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ پاکستان کے 20 کروڑعوام خالی کرسیاں دیکھ رہے ہیں، ہم عوام کے اعتماد کا قتل کر رہے ہیں۔ خورشیدشاہ نے کہا یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کالے بادل چھائے ہوئے ہیں، پارلیمنٹ بھری ہو تو کسی کی جرات نہیں آنکھ اٹھا کر دیکھے، پارلیمنٹ کو ہم نے خود کمزور کیا ہے، 53 وزیر ہے مگر ایوان میں کوئی بھی نہیں۔ پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن اسمبلی میں کوئی نہیں آتا۔ شیخ آفتاب نے کہا کہ خورشیدشاہ کے تحفظات درست ہیں، ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس خود کرنا چاہئے۔ بل کی منظوری کے موقع پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ذکر آیا تو ڈپٹی سپیکر نے کہا کم ازکم اس کو آج معاف کردیں ۔ قومی اسمبلی کارروائی کے دوران تحریک انصاف کے رکن ساجد نواز کی طرف سے بجلی کا معاملہ اٹھانے پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے آج تو ’’بجلی کو معاف کردیں‘‘ کے ریمارکس دیئے۔ قومی اسمبلی نے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے توصیفی قرارداد منظور کرلی ہے جبکہ قرارداد میں تجویز دی گئی ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ممبران‘ سیکرٹری کمیٹی‘ سیکرٹری الیکشن کمیشن اور وزارت قانون کے سینئر ڈرافٹ مین کو صدارتی ایوارڈ دیا جائے۔ آئی این پی کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی بائیومیٹرک والیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی بنیاد پر انتخابات کے انعقاد، سیاسی جماعتوں کیلئے انتخابی اخراجات کی پانچ اور دس کروڑ روپے کی حد مقرر کرنے، امیدواروں کو دی جانے والی انتخابی فہرستوں سے خواتین کی تصاویر کو نکالنے، اثاثوں کے بارے میں آفیشل گزٹ کی شرط ختم کرنے کی ترامیم بھی مسترد ہوگئیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف ملک کے مخصوص حلقوں میں فوجی افسران کو ریٹرنگ افسران مقرر کرنے کی ترمیم بھی لے آئی۔ اپوزیشن جماعتیں 2018کے عام انتخابات کے نتائج کو بائیو میٹرک سسٹم اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کی بنیاد پر مشکوک قرار نہ دینے کی واضح یقین دہانی نہ کروا سکیں۔ اس معاملے پر وزیر قانون وانصاف زاہد حامد، وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین میاں عبدالمنان نے اپوزیشن سے اصرار بھی کیا ہے کہ کسی جماعت کے ہارنے پر وہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو تو ذمہ دار قرار نہیں دیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے کوئی دوٹوک الفاظ میں موقف نہ دے سکیں اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اس حکومتی بیان پر خاموش بیٹھے رہے۔ آن لائن کے مطابق رکن اسمبلی عائشہ میر نے منگل کے روز قومی اسمبلی اجلاس کے دوران کہا پشاور میں رشتہ سے انکار پر خاتون کے قتل پر ایوان کی طرف سے مذمتی قرارداد منظور کی جائے۔ قومی اسمبلی سے آئینی انتخابی اصلاحاتی بل کی منظوری اور تیاری میں کردار ادا کرنے والے ارکان اسمبلی کو ایوارڈز دینے کی وفاقی وزیر سیفران جنرل عبدالقادر بلوچ کی تجویز کے ردعمل پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا انتہائی اہمیت کے حامل بل پر بحث کے دوران اجلاس کے آخر تک موجود رہنے والے 20 اراکین اسمبلی کو بھی ایوارڈ دینا چاہئے۔ بی بی سی کے مطابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا حکومت آئین کی شق 62 ون ایف میں ترمیم کا ارداہ رکھتی ہے۔ اس شق میں نااہلی کی کوئی مدت متعین نہیں۔ نااہلی کی مدت پانچ سال سے کم ہونی چاہئے۔ مزید براں ذرائع کے مطابق دو بڑی جماعتیں نیب کے خاتمے کے قریب پہنچ گئیں۔ حکمران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی قومی احتساب کمشن کے قیام پر متفق ہیں۔ نئے کمشن کا دائرہ اختیار صرف وفاقی اداروں پر ہو گا۔ نیب میں زیرسماعت تمام کیسز نئے احتساب کمشن کو منتقل ہو جائیں گے۔ وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی 55 میں سے 53 نکات پر راضی ہو گئیں۔ آئندہ اجلاس میں عوامی عہدیدار، کرپشن کی تعریف واضح کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی فوج اور عدلیہ کو بھی نئے قومی احتساب کمشن کے دائرہ کار میں شامل کرنے پر بضد ہے۔ حکومتی ارکان پیپلز پارٹی کے مطالبے سے متفق ہو گئے۔ آفتاب شیرپائو نے پیپلز پارٹی کے مطالبے کو رد کر دیا۔ آفتاب شیرپائو نے اجلاس میں مؤقف اختیار کیا وہ کہنا چاہئے جو کیا جا سکے۔

ای پیپر-دی نیشن