;;جہد مسلسل کی مثال - ادیب جاودانی
زندگی کے ساتھ ساتھ موت چل رہی ہوتی ہے اور ہم اس کا ادراک ہی نہیں کر پاتے۔ہمیں اس بات کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بہت ہی پیارا‘ عزیز یا دوست ہم سے بچھڑ کر ابدی سفر پر چلا جاتا ہے۔ میرا دوست ادیب جاودانی -12 اگست 1946ءکو فیصل آباد کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد مقامی اخبار میں بطور رپورٹر عملی زندگی کے اکھاڑے میں اتر گیا۔ ادیب جاودانی کا حقیقی نام تو علی محمد تھا مگر چونکہ انہیں شاعری سے بھی شغف تھا اور وہ شعر بھی کہتے تھے اس لیے انہوں نے اپنا تخلص ادیب جاودانی رکھ لیا جو بعد ازاں زبان زد عام ہو گیا۔ ان کی منزل اخبار کے لیے رپورٹنگ نہ تھی اس لیے انہوں نے 1977ءمیں شہر لاہور کا رخ کیا اور ”اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں۔ قسمتِ نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں“کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے شاہ عالم کے علاقے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر مون لائٹ سکول سسٹم کے نام سے ایک کامیاب تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ آغاز میں یہ سکول صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا ۔ اس سکول کو بام عروج تک پہنچانے میں بلا شبہ ان کی اہلیہ نے بھی شب و روز محنت کی اور ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ آج اس سکول کی لاہور کے علاوہ گجرات اور فیصل آباد میں بھی کل 8 شاخیں قائم کی جا چکی ہیں۔ وہ صرف انسانیت کے قدردان نہیں تھے بلکہ اس سے بڑھ کر دوست نواز اور تعلیم دوست بھی تھے۔ انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ گزشتہ 3 دہائیوں سے مسلسل آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوی ایشن کے بلامقابلہ صدر منتخب ہو رہے تھے۔
ا نہوں نے 1981ءمیں مون ڈائجسٹ کا اجراءکیا اس کے ساتھ ساتھ نوائے وقت میں احوال دیگر کے عنوان سے کالم نگاری کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ ان کا کالم ان کی رسم قل والے دن بھی اخبار کی زینت بنا۔ وہ ملک کی مشہور اخباری تنظیموں سی پی این ای اور اے پی این ایس سے بھی وابستہ رہے اور ان میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ وہ ایک نظریاتی اور محب وطن شخصیت کے مالک تھے۔ اسی طرح انہوں نے ڈاکٹر مجید نظامیؒ کے مشن کو آگے بڑھانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ وہ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کی ایڈوائزری کونسل کے رکن بھی تھے اور ادارے کی سرگرمیوں میں ہر لحاظ سے تعاون کرتے۔ نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والوں میں ان کا نام سرفہرست ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جیلوں میں قید مظلوم اور بے بسی قیدیوں کی ممکنہ قانونی امداد کر کے مخلوق خدا کی دعائیں لیتے تھے۔ انہوں نے مون ڈائجسٹ میں پاکستانی سیاسی قیادت کے انٹرویوز کر کے بلاشبہ ایک تاریخی دستاویز تیار کر کے قوم کے حوالے کی ہے۔ وہ تحریک پاکستان کے رہنما محمود علی مرحوم کی تحریک تکمیل پاکستان کے بھی سرگرم رکن تھے۔ ان کی خدمات کے پیش نظر انہیں تحریک تکمیل پاکستان پنجاب کا صدر بھی بنایا گیا اور وہ تادم مرگ اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ 1990ءمیں قرارداد پاکستان کی گولڈن جوبلی منانے کے سلسلے میں ایک وفد ڈھاکہ گیا اس موقع پر میں بھی وفد کا حصہ تھا انہوں نے وہاں لوگوں کے انٹرویوز بھی کیے۔ وہ صوفی برکت علی لدھیانوی کے بہت بڑے معتقد تھے۔ انہوں نے مون ڈائجسٹ کے کئی ایک خصوصی شمارے صوفی برکت علی کے نام سے معنون کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کی زندگی جہد مسلسل‘ مستقل مزاجی‘ لگن‘ شوق اور ولولے سے عبارت ہے۔ انہوں نے صحافتی اور تعلیمی حلقوں میں انتھک محنت سے اپنا آپ منوایا ہے۔ میری ان سے گاہے بالمشافہ ملاقات رہتی تھی ورنہ ٹیلی فون پر تقریباً ہر دوسرے دن ضرور رابطہ ہوجاتا تھا۔ ان کی وفات سے 2 دن قبل اتوار 20اگست کو جو رابطہ ہو وہ آخری ثابت ہوا۔ اس دن انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ الرجی کے باعث اسپتال میں داخل ہیں۔ میں نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ آپ آج شام تک صحت یاب ہو کر گھر آجائیں گے۔ ہم کل ملاقات رکھتے ہیں- وہ خود بھی کافی حوصلے میں لگ رہے تھے۔ ان کی آواز میں جوش تھا لیکن ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ انہوں نے بالآخر 70 سال کی عمر میں 22 اگست کی علی الصبح پانچ بجے داعی¿ اجل کو لبیک کہا اور ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ انہوں نے پسماندگان میں 3صاحبزادے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔ اﷲ پاک انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین