• news
  • image

کیا فوجی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے؟

پاکستان یقیناً مشکل میں ہے۔ ایک ”ریاست“ جو بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل کی تھی۔ جس کا نصف ہم گنوا چکے ہیں۔ ریاست کے معاملات اور ووٹ کی حیثیت کے حوالے سے دور اندیشی درکار ہے۔ یہ دو اُمور شیشے کی طرح نازک ہیں، ہمیں ایک تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔جنرل یحییٰ خان نے کسی قانونی اور آئینی اختیار کے بغیر ”ون یونٹ“ توڑ دیا اور ایک آدمی ایک ووٹ کے نظریے پر الیکشن کرا دیئے۔ بھارت اور مجیب الرحمن کی سازشوں نے حالات خراب کئے۔ مجیب کی الیکشن میں اکثریت تھی مگر جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو نے جو دو صوبوں سندھ اور پنجاب کے نمائندے تھے، اکثریتی جماعت کو حکومت دینے سے انکار کر دیا۔ ”ووٹ“ کی آئینی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا گیا جسکے نتیجے میں دشمن نے فائدہ اٹھایا اور ملک دولخت ہو گیا۔
جنرل نیازی نے بھارتی جنرل کے قدموں میں ہتھیار رکھ دیئے سیلوٹ کیا۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ ووٹ کی بے حُرمتی سے جغرافیے بدل جاتے ہیں۔
1956ءکا دستور مشرقی اور مغربی پاکستان کے مُحب وطن لوگوں نے تشکیل دیا تھا۔ اُس میں پاکستان کو دو یونٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ مشقی اور مغربی پاکستان اور پیریٹی یا مساوات کو تسلیم کیا گیا۔ ستم ظریفی کہ ملک میں مارشل لاءلگا دیا گیا۔ 7 اکتوبر 1958ءکو ”غیرمنتخب“ صدر پاکستان اسکندر مرزا نے مارشل لاءنافذ کر دیا۔ جنرل ایوب جو کمانڈر انچیف تھے انہوں نے چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کا منصب حاصل کیا۔ 1956ءکے دستور کو منسوخ کر دیا گیا۔ وہ پاکستان کو بچانے کا واحد ذریعہ تھا۔ جنرل ایوب خان نے سوچا کہ جب مارشل لاءہی چلانا ہے تو اسکندر مرزا کو کیوں باقی رکھا جائے۔ 27 اکتوبر 1958ءکو انہوں نے اسکندر مرزا کی چھٹی کر دی۔ پھر جو ہوا ہم اوپر اُس قِصے کو بیان کر چکے ہیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اس حکومت میں دس برس رہے۔ اِس میں کیا شک ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے بھاری مینڈیٹ حاصل کیا۔ اُنکو الیکشن میں ہرانا ناممکن تھا۔ ایک نوخیز سیاسی جماعت نے جب سے نواز شریف برسرِ اقتدار آئے اُن کا حکومت کرنا ناممکن بنا دیا۔ اور حالات کو یہاں تک لے آئے۔
سپریم کورٹ کے حوالے سے معاملات ”نازک“ ہیں۔ ہم زیرِ بحث نہیں لائیں گے۔ لیکن یہ گزارش دلے داری کے ساتھ ضرور کرینگے کہ ”ریاست“ اور ”ووٹ“ کے حوالے سے معاملات کو جذبات کی بجائے دور اندیشی سے حل کرنا چاہیے۔ انتہا پسندی کے رحجانات نے پنجاب میں جنم لیا تو باقی پاکستان کا خدا حافظ ہے۔میاں نواز شریف نے فیصلے کی تعمیل تو کی ہے مگر اُسے ذہنی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ عوامی رابطہ مہم میں اُنہیں زبردست حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اب جب کہ چند مہینے الیکشن میں باقی ہیں، میاں صاحب کو بے اقتدار کرنا ریاست کے معاملات میں فہم و فراست کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ بھٹو کو سپریم کورٹ نے پھانسی پر لٹکایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی سندھ، اربن سندھ کو چھوڑ کر جئے بھٹو کے نعرے لگا رہا ہے۔ ہم دراصل پاکستان کے عوام کو تقسیم در تقسیم کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو زبردستی پنجاب کا ”مجیب الرحمن“ بنا دیا گیا تو بچے گا کیا؟
فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے بے حد صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ چاہیں تو میدان صاف ہے۔ یا حوصلے کو ثابت کریں یا فہم و فراست سے سب کو راست پر لائیں۔ جو کرنا ہے پارلیمانی جمہوریت میں عدلیہ محض ایک ستون ہے، دوسرا ستون پارلیمنٹ ہے اور تیسرا انتظامیہ جس کا مطلب ہے حکومت، مگر پاکستان کے حالات کی وجہ سے فوج بھی انتظامیہ کا حصہ ہے۔ اب بظاہر عدلیہ نے پارلیمانی، دونوں اداروں کو ”چت“ کر دیا ہے۔ سیاست محض Theory نہیں ہے، بلکہ زیادہ Practical ہے۔ سیاست کی اپنی Dynamics ہوتی ہیں۔ نواز شریف کو سزا ہو گئی، اُس کے دو بیٹوں کو بھی جو بیرونِ ملک کام کرتے ہیں اور بیٹی کو بھی، جو سیاست میں آنے کیلئے پَر تول رہی تھی۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں تو آپ دیانتداری سے سوچئے کہ اُنکے حامی حلقوں میں غم و غصے میں اضافہ ہو گا۔ ایک اور شیخ مجیب ”تراشا“ جا رہا ہے۔ الیکشن میں چند مہینے ہیں مگر حالات کی رفتار کو ”دانستہ تیز“ کیا جا رہا ہے۔ عمل اور ردِعمل ہی ہوتا رہے گا؟ہم بحیثیت ملک و قوم پہلے ہی شدید مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اب دو ہی راستے ہیں کہ پہلے چار مارشل لا¶ں کی طرح ایک اور مارشل لاءنہ لگے۔ یا فوج کے سربراہ خاموش مذاکرات کر کے تصادم کو ختم کرائیں جو انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان ہو رہا ہے۔
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
یہ محض اتفاق ہے کہ ہماری اُلجھنوں کا حل اب ایک ہی شخصیت تلاش کر سکتی ہے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ ! یا خاموشی سے مذاکرات کے ذریعے اداروں کو ٹھنڈا کریں ورنہ خود تشریف لے آئیں۔ پاکستان کی سلامتی سب سے زیادہ ضروری ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن