چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
ہمارے دانشوروں اور شاعروں نے سالوں پہلے استعماریت کے خلاف اپنی آواز بلند کی، سرماریہ داری، جاگیرداری، طبقاتی کشمکش، استحصالی قوتوں سے اپنی نفرت کا اظہار کیا اور مثبت سماجی انقلاب کا پیغام دیا۔
قارئین کرام! جن قوموں کے معاشروں کے اندر فوجی قوتیں مسلط ہوجائیں اور آمریت کا دوردورہ ہو، وہاں عوام الناس کیلئے اپنی احتجاجی آوازیں بلند کرنا تو دور کی بات، سانس تک لینے کی آزادی بھی سلب کرلی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ معاشرہ گھٹن کا شکارہونے لگتا ہے۔ باہمی ہم آہنگی کا عمل رک جاتا ہے اور معاشرے کی سوچ و عمل پر جمود طاری ہوجاتا ہے یہی وہ جمود کا عمل ہے جس کے نتیجے میں محض معاشرتی تفاوت اور انتشار جنم لیتے ہیں۔ صبر و تحمل، رواداری اور بلند عزائم کے حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں۔
مارشل لاءحکومتوں نے برسوں تک ہماری معیشتوں پر بھی بالواسطہ قبضہ جمائے رکھا اور جب عوام کے اندر ان سامراجی طاقتوں سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ پیدا ہوا تو ا±نہوں نے ملک میں جمہوری نظام قائم کرنے کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔ اب ہوتا کیا ہے کہ جب یہ جمہوری قوتیں بعض وجوہات کی بنائ پر اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر پاتیں تو معاشرہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے اور اسی نتیجے میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت جیسے عفریت معاشرے کو اپنے حصار میں لے کر ا±س کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ہم انقلاب کی باتیں کرتے نہیں تھکتے، انقلاب کے نعرے تو بلند کرتے ہیں لیکن انقلاب کی اصل روح سے ہم میں سے شاید ہی کوئی واقف ہوگا، غیر اہم اور وقتی تبدیلی کو انقلاب کا نام دینا محض جہالت ہے۔ فیض کی نظم”بولی“ جس کو مشتاق احمد یوسفی نے World Third The of Testtament نام دیا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
یہ نظم چھ عشرے قبل ا±س وقت کہی گئی جب نو آبادیاتی عہد استعمار میں زبان کھولنے پر پابندی تھی۔ لیکن آج رسم زبان بندی بھی کافی حد تک ختم ہوچکی ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج دنیا بھر میں تبدیلی کی لہریں شدت اختیار کر تی جارہی ہیں یہ حقیقت ہے کہ آج بھی ساری دنیا میں قوموں اور ملکوں کے فیصلے حاکم ہی کرتے ہیں لیکن اب د±نیا بھر کے محکوم عوام نئی قوت اور طاقت کے ساتھ منظم بھی ہورہے ہیں اس کی ایک مثال ا±س وقت بھی سامنے آئی جب امریکہ نے عراق پر حملہ کردیا تھا دنیا بھر کے حاکمین امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے لیکن دوسری طرف دنیا بھر کے عوام امریکہ حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف متحد ہوگئے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ د±نیا بھر کی عوام کی طرح کیا ہمارے عوام بھی اپنی سوچ، اپنا نظریہ تبدیل کر رہے ہیں یا محض ا±ن جانوروں کی چال چل رہے ہیں جن کو کوئی بھی اپنی مرضی سے ہانک کر کہیں بھی لے جانے کا اختیار رکھتا ہے۔ کیا کبھی ملک پاک کے عوام اصل شعور و بیداری کی حالت میں آئیں گے جب اُنہیں اپنے اصل حقوق سے آشنائی ہوگی۔ کیا ہمارے عوام اپنی ریاست کو چلانے کے طریقہ کار میں صحیح عوامل کا کردار ادا کرسکیں گے یا نہیں؟سیاستدان تو اپنی سیاست کے کھیل کھیلتے رہیں گے، ہم سے انقلاب کے نعرے بھی لگوائیں گے۔ ہم کب تک کٹھ پتلیاں بن کر اپنی ڈور ان کے ہاتھوں میں تھمائے رکھیں گے۔ہمیں شعور کی آنکھ کھول کر اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا واقعی ہم جمہوریت کے دور میں جی رہے ہیں یا استعماری طاقتیں ابھی تک ہمارے دماغوں پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھی ہیں؟آج ہماری دوست فرحت زاہد نے سوشل میڈیا پر ایک نظم لگا کر سوال کیا ہے کہ ہمارے دانشوروں اور شاعروں کو ایسے موضوعات پر قلم ا±ٹھانا چاہئے۔
تم کن پر نظمیں لکھتے ہو
تم کن پر کتب بناتے ہو
تم کن کے شعلے اوڑھتے ہو
تم کن کی آگ بجھاتے ہو
اے دیدہ ورو .... انصاف کرو
اس آگ پر تم نے کیا لکھا؟
جس آگ میں سب کچھ راکھ ہوا
میری منزل بھی۔ میرا راستہ بھی
میرا مکتب بھی ، میرا بستہ بھی
میرے بستے کے لشکارے بھی
میرے ست رنگے غبارے بھی
میرے جگنو بھی، میرے تارے بھی
اے دیدہ ورو.... انصاف کرو
قارئین! اس نظم انصاف کیلئے دیدہ وری بھی تو ضروری ہے ہمیں اب اپنی شعور کی آنکھ کو کھولنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ بحیثیت قوم ہمار انام تک لینے والا کوئی نہ ہوگا، ہمیں شعور و آگہی کی اپنی اپنی شمع روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ظلم و بربریت، انتشار، معاشرتی افراتفری، بھوک، بیروزگاری کے جیسے عفریت کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں آج صرف اپنے لئے نہیں اپنی آئندہ نسلوں کیلئے آواز اٹھانا ہوگی۔ بہتر مستقبل کیلئے بہتر نمائندے منتخب کرنا ہوں گے ابھی توآغاز سفر ہے منزل ابھی بہت دور ہے۔
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی