غلط بنیادوں پر کیا فیصلہ واپس لیا جائے: نوازشریف‘ نااہلی کیس سے متعلق 12 سوالات رکھ دیئے
لاہور (خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار خصوصی) سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ انہوں نے کیس کے حوالے سے وکلاء کے سامنے 12 سوالات رکھ دئیے۔ وہ ایوان اقبال میں آل پاکستان وکلاء کنونشن سے خطاب کر رہے تھے جس کا اہتمام مسلم لیگ (ن) لائرز فورم نے کیا تھا۔ سٹیج پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد، گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ، صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان، وزیر تعلیم رانا مشہود خان، سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر آصف کرمانی، چودھری نصیر بھٹہ، اسلم ڈار، خواجہ محمود احمد اور بلال بٹ موجود تھے۔ ملک بھر سے وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر چودھری تنویر اختر، پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اعظم نذیر تارڑ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں اسرار الحق نے بھی خطاب کیا۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ وہ عرصہ سے پاکستان، جمہوریت اور عوام کا مقدمہ بڑی عدالت میں لڑ رہے ہیں۔ پانامہ پیپرز کا مقصد ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنا تھا۔ وکلاء ہمیشہ قانون کی حکمرانی کے علمبردار رہے اور عدلیہ کی آزادی کیلئے انہوں نے جاندار تحریکیں چلائیں، سختیاں برداشت کیں۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء پر آج بھی بھاری ذمہ داری ہے۔ یہ جدوجہد کسی فرد واحد یا چند افراد کیلئے نہیں بلکہ آئین کی بالادستی کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کا ایک فیصلہ 20 اپریل دوسرا 28 جولائی کو سامنے آیا۔ پہلے فیصلے میں درخواستوں کو بے بنیاد قرار دیا گیا جبکہ دوسرے میں وہی درخواستیں بامقصد ثابت ہو گئیں۔ چند سوال ایسے ہیں جو عام شہری کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ میں آپ کے اور قوم کے سامنے یہ سوال رکھ رہا ہوں۔ پہلا سوال یہ کہ کیا آج تک کبھی ایسا ہوا کہ واٹس اپ کال کے ذریعے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟ دوسرا سوال کہ کیا آج تک اس قسم کے الزاات کی تحقیق کیلئے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی؟ تیسرا سوال کہ کیا قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کیلئے خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ داری سونپی گئی؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ کیا آج تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی؟ پانچواں سوال ہے کہ کیا کسی بھی درخواست گزار نے دبئی کی کمپنی اور میری تنخواہ پر نااہلی کی استدعا کی تھی؟ چھٹا سوال ہے کہ کیا کوئی عدالت واضح قوانین کو نظرانداز کر کے مطلب کے معنی نکالنے کیلئے کسی ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے؟ ساتواں سوال ہے کہ ہماری 70 سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ ایک مقدمے میں چار فیصلے سامنے آئے ہوں؟ آٹھواں سوال ہے کہ کیا کبھی وہ جج صاحبان پھر سے کسی بنچ میں شامل ہو سکتے ہیں جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں؟ نواں سوال ہے کہ کیا ان جج صاحبان کو جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فیصلہ کرنے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ کو نہ دیکھا نہ اس پر بحث کی؟ دسواں سوال ہے کہ کیا عدالتی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ نہ صرف نیب کی کارروائی اور ٹرائل کورٹ کی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کے ایک ایسے جج کو لگا دیا گیا ہو جو پہلے ہی فیصلہ دے چکا ہو؟ گیارہواں سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے جج کی زیرنگرانی ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کر سکتی ہے اور بارہواں سوال یہ ہے کہ کیا نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کام کرنے کیلئے عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے؟ نواز شریف نے کہا کہ غلط بنیادوں پر غلط انداز میں کیا گیا یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ ہم نے اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غلط اور افسوسناک نظیر بنانے والے اس فیصلے کو دل و جاں سے تسلیم بھی کر لیا جائے۔ تمیز الدین کیس سے ظفر علی شاہ کیس تک ایسے فیصلے کس نظر سے دیکھے جاتے ہیں آپ کو معلوم ہے۔ تاریخ نے اس فیصلے کو بھی انہی فیصلوں والی الماری میں ڈال دیا جو بے توقیر ہو چکے۔ صدیوں کا مسلمہ اصول ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہئے۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی کسی سے نہیں بنتی، ممکن ہے مجھ میں کمزوری یا کمی ہو، لیکن لیاقت علی خان سے اب تک کسی ایک کی تو بنتی۔ کیا 18 کے 18 وزیراعظم نواز شریف تھے۔ ایسے فیصلے خود عدلیہ کے وقار، ساکھ پر بھی منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سوراخ کو بند کرنا ہے جس سے بار بار جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کو ڈسا جاتا ہے۔ پانامہ پر فیصلہ عوام کی پراپرٹی بن چکا جس پر عوامی رائے دی جا رہی ہے اور دی جاتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے جس ڈائیلاگ کا آغاز کیا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ ہم بیماری کی نہ صرف تشخیص کریں بلکہ اس کا علاج بھی تجویز کریں تاکہ آئین پاکستان کی جانب سے عوام کو دیئے جانے والے ووٹ کے تقدس اور اس سے ملنے والے اختیار کے استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ میری جدوجہد یا تبدیلی خواہش یا انقلاب کی آرزو کا حاصل یہی ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے وکلائ، دانشوروں، اساتذہ، محنت کشوں اور دیگر تمام طبقات زندگی سے اپیل کی کہ وہ اس ڈائیلاگ کا حصہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو ان تمام طبقات سے مکالمے کا آغاز کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف چند سوالات ہیں جو ہر پاکستانی قانون سے پوچھ رہا ہے ہم نے ریویو پٹیشن میں ان سوالات کو بھی اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری 70 سال کی تاریخ میں آئین و قانون کی بالادستی سوالیہ نشان بنا رہا- انہوں نے کہا کہ 1970ء میں پہلے آزادانہ انتخابات ہوئے لیکن جب ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا تو ملک دولخت ہو گیا- دستور میں آئین کو توڑنے کو جرم قرار دیا گیا لیکن آرٹیکل چھ کے تحت کسی بھی آئین شکن کا ٹرائل نہیں کیا گیا- ذوالفقار علی بھٹو کو پہلے اقتدار سے نکالا گیا اور پھر پھانسی پر چڑھا دیا گیا- بے نظیر بھٹو کو دوبار اقتدار ملا مگر انہیں دونوں بار فارغ اور پھر قتل کر دیا گیا- انہوں نے کہا کہ مجھے پہلی بار اقتدار ملا تو 58 ٹو بی کے ذریعے، دوسری بار ڈکٹیٹر نے شب خون مار کر اٹک قلعہ میں ڈال دیا، پھر تیسری بار قوم نے منتخب کیا تو عدالت نے عدالتی فیصلہ کے ذریعے مجرم قرار دے کر نااہل کر دیا گیا- آئین کو بار بار پامال کرنے کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ آئین کے تقاضوں کے برعکس ہماری عدالتیں آمروں کے اقدامات کو شرف قبولیت بخشتی رہیں۔ نہ صرف انہیں آئین میں من پسند ترامیم کرنے کا اختیار دیا بلکہ اس کا حلیہ بگاڑنے کی کھلی چھٹی دیتی رہیں۔ جج صاحبان نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے ان آمروں کی شخصی وفاداری کا حلف اٹھایا۔ طاقت اور عدالت کے اس گٹھ جوڑ نے ملک و قوم اور آمریت کو شکنجے میں جکڑے رکھا اور دوسری طرف سیاستدان بھی اس گٹھ جوڑ کا نشانہ بنتے ہوئے پھانسیوں پر چڑھتے، جیلوں میں سڑتے اور ملک بدر ہوتے رہے مگر کوئی بھی آئین شکن آج تک سزا نہیں پا سکا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کے صدر نصیر احمد بھٹہ نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر سے آئے ہوئے وکلاء نے میاں نواز شریف کے خلاف دیئے گئے عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ ملک بھر کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد وکلاء کا اعلان ہے کہ ورہ 2018ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف کو ہی کامیاب کروائیں گے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر چودھری تنویر اختر نے کہا کہ بطور صدر لاہور بار وہ میاں نواز شریف کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ملک کے استحکام کیلئے جو اقدامات میاں نواز شریف نے کئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جس طرح ماضی میں کئے گئے کئی عدالتی فیصلوں کو عوام نے قبول نہیں کیا اسی طرح میاں نواز شریف کے خلاف فیصلے کو بھی عوامی پذیرائی نہیں ملے گی۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اسرار الحق میاں نے کہا کہ نواز شریف نے وکلاء کی فلاح و بہبود کیلئے اہم اقدامات کئے، ان کو یقین ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر دوبارہ فائز ہوں گے۔ آن لائن کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ آج بھی وکلاء پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ علامہ اقبال کی فکر اور بانی پاکستان کی جدوجہد کے مطابق جمہوریت کی بقاء کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ قانون کی حکمرانی کے لئے تحریک پاکستان کی طرح اب نئی تحریک کا آغاز کر رہا ہوں۔ وکلائ، اساتذہ، دانشور، تاجر، سول سوسائٹی اور ملک کے تمام طبقات اس تحریک میں بھرپور شریک ہوں۔ دی نیشن کے مطابق نوازشریف کا کہنا تھا کہ کوئی طاقت منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج سکتی ہے نہ سول حکومت کو ختم کر سکتی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے طاقت اور عدالت کا گٹھ جوڑ توڑنا ہوگا۔ انکا کہنا تھا کہ وکلاء کو جمہوری اداروں کی مضبوطی میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ ووٹ کے تقدس کے مشن میں میرا ساتھ دیں۔