• news
  • image

انٹری ٹیسٹ کیلئے ایک فریادی کالم

میں حیران ہوں کہ انٹر میڈیٹ بورڈ کے امتحان کے بعد ملازمت مل سکتی ہے تو میڈیکل کالجوں میں داخلہ کیوں نہیں مل سکتا۔ یہ تو بالکل واضح طور پر انٹرمیڈیٹ بورڈ پر عدم اعتبار کی بات ہے۔ یہ بات ہے تو ان بورڈز کو ختم کرو اور امتحان کے بغیر بچوں کو انٹرمیڈیٹ کی سند بلکہ سند امتیاز دے دو۔
اب اس امتحان پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ حکومت اسے ختم نہیں کرے گی بلکہ اس کے بعد ایک اور ٹیسٹ کا اہتمام کیا جائے گا اور اس سے جن لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے وہ بدستور پہنچتا رہے گا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس میں اوپر والوں کا حصہ کتنا ہے؟ یہ تو صرف غریب لوگوں کو بدنصیب بنانے کی کوئی ترکیب ہے۔ اس حوالے سے میرے بھائی نامور شاعر اور کالم نگار سعداللہ شاہ نے ایک زبردست کالم لکھا ہے۔ میرا دل چاہا کہ میں بھی لکھوں۔ شاہ جی نے اپنے جامع انداز میں بات کی ہے کہ میرے لیے مشکل بن گئی ہے۔
مجھے مخلص اور مہربان دوست حسین شاد مرحوم کی بیٹی شگفتہ نے فون کیا اور روتے ہوئے انٹری ٹیسٹ کے مظالم کی بات کی ہے۔ اس کی ہونہار قابل بیٹی نے بہت اعلیٰ نمبر انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں حاصل کیے ہیں۔ ایک غریب کے لیے سخت محنت کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔
جس ملک میں محنت کا صلہ نہیں ملتا وہاں محبت کا کیا صلہ ملے گا۔ غریب ہی ہیں جو اچھے ہیں۔ دل و جان سے محنت کرتے ہیں مگر ہر شعبے میں صرف امیروں کو نوازا جاتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ ے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں جس کے لیے امیر بچے تو افورڈ کر سکتے۔ لاکھوں روپے رشوت بھی دے سکتے۔ حکمران بتائیں کہ غریب کہاں جائیں۔
اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ باقاعدہ ایک ایک سوال بکتا ہے۔ جو نہیں خرید سکتا وہ جہنم میں جائے۔ انٹرمیڈیٹ میں بہت نمبر لینے والا بچہ انٹری ٹیسٹ میں بہت کم نمبر لیتا ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے لیے 40 فیصد اور انٹری ٹیسٹ کے پچاس فیصد نمبر بنائے گئے ہیں کئی لوگ جو انٹر مینڈیٹ امتحان کے لئے دس بارہ دنوں میں اتنا نہیں کما سکتے جو انٹری ٹیسٹ کے تین گھنٹوں میں کما لیتے ہیں۔ امتحان پر اعتراض اٹھانے والے انٹری ٹسٹ پر بھی اعتراض اٹھانے لگے ہیں اور اسے زیادہ بڑا کاروبار سمجھنے لگے ہیں۔
ہم ایسے زبردست لوگ ہیں کہ ہم نے ہر شعبے کو کاروبار بنا لیا ہے۔ ہم ایک کاروباری قوم بنتے جا رہے ہیں جو کاروبار نہیں کر سکے وہ کہاں جائیں۔ کہا جا رہا ہے کہ انٹری ٹیسٹ میں اکثر سوالات آ¶ٹ آف کورس ہوتے ہیں۔ اس ٹسٹ کی تیاری کے لئے اکیڈمیاں سرگرم ہوتی ہیں۔ پہلے تو امتحان کے بعد تین مہینے تک اکیڈمی میں پڑھائی ہوتی ہے وہ تقریباً چالیس پچاس ہزار لیتے ہیں۔ دوسرے اخراجات ملا کے یہ رقم لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ کاروباریوں کو کروڑوں کا فائدہ ہوتا ہے۔
حیرت ہے کہ انٹر میڈیٹ امتحان میں زیادہ نمبر لینے والے انٹری ٹیسٹ میں بہت کم نمبر لیتے ہیں۔ انٹر میڈیٹ میں 600 نمبر لینے والا اور ایک ہزار نمبر لینے والا شامل ہوتا ہے۔ جبکہ 600 نمبر والوں کو کبھی میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں مل سکتا۔ اور حیرانی پریشانی بن جاتی ہے کہ 600 نمبر لینے والا میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیتا ہے مگر ایک ہزار نمبر والا مایوس ہوتا ہے اور صرف روتا رہتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ کو برادر سعداللہ شاہ نے ظلم عظیم کہا ہے۔
ہمارے ارباب اختیار مسائل حل نہیں کرتے۔ مسائل بڑھا دیتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں کھلے عام نقل ہوئی۔ سب بچوں نے بے تحاشا نمبر حاصل کئے مگر میڈیکل کالجوں میں داخلہ ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔ حکام نقل تو روک نہ سکے مگر ایک اور امتحان میں بچوں کو رول دیا گیا۔
ہمیں بتایا جائے کہ اس ملک میں کتنے امتحانوں کا سامنا لوگوں کو کرنا پڑے گا اور ہر امتحان کا حال وہی ہو گا جو پہلے امتحان میں ہوا۔ کرپشن کو کہیں بھی پاکستان میں ختم نہیں کیا جا سکا۔ یہ کرپشن انٹری ٹیسٹ کے حوالے سے بھی ہو رہی ہے تو اب افسروں اور حکمرانوں کا کیا ارادہ ہے۔
نظام تعلیم کی تبدیلی کا خواب نظام امتحانات میں اصلاحات کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا اور شرمندگی ہماری زندگی بنی رہے گی۔
زندگی کو شرمندگی بنانے والے زندگی درندگی بنا دینا چاہتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان ایک امتحان گاہ ہے یہاں صرف تجربے کئے جا رہے ہیں کیا کسی تجربے سے فائدہ بھی اٹھایا جائے گا؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن