جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
چودہ اگست 1947ءکو پاکستان معرض وجود میں آیا۔غلامی کی زنجیریں پاش پاش ہوئیں۔سربستہ حقیقتیں فاش ہوئیں۔انگریز کی رعونت و اہانت کا دور اختتام پذیر ہوا۔ہندو کی عیاری و مکاری سے نجات ملی۔علامہ اقبال کی ”فراست“نے دوقومی نظریہ کی آبیاری کی اور قائداعظم کی ”قیادت“نے چراغ آزادی جلا کر شب تیرہ و تاریک کے دامن کو تار تار کردیا۔اس سلسلہ میں ملک بھر میں جشن آزادی منایا گیا۔بحریہ کالج اسلام آباد کے پرنسپل کموڈور اقبال جاوید نے ”نظریہ پاکستان“کے موضوع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں کموڈور مصباح الدین چوہان کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں اساتذہ نے شرکت کی۔راقم الحروف نے تقریب کی صدارت کی۔نظریہ پاکستان کو دو قومی نظریہ قرار دیتے ہوئے عرض کیا کہ تشکیل پاکستان بشارت رسول ہے۔آپ نے ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ سے فرمایا ”مجھے ہند کی جانب سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے“۔پاکستان ریاست مدینہ کے بعد دوسری نظریاتی اسلامی ریاست ہے۔بقول علامہ اقبال:
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے چند روز قبل اپنی تازہ تصنیف بعنوان”اسلام اور پاکستان“ارسال کی۔اس کتاب میں انہوں نے تحریک پاکستان پر بڑی کاوش سے قابل تحسین مواد مہیا کیا ہے۔ایک مقام پر لندن سے اس واقعہ کا ذکر ہے جب قائداعظم کو رسول پاک نے حکم دیا کہ وہ ہند میں جاکر مسلمانوں کی رہنمائی کریں ۔مزید براں حضرت قمر الدین سیالوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے بیانات درج ہیں۔انہیں خواب میں پیغمبر اسلام کی بشارت ہوئی کہ جناح کی حمایت کرو۔خطاب میں راقم الحروف نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ارض مقدس ہے۔یہ نظریاتی سرزمین ہے۔یہ اسلام کا قلعہ ہے ۔مذہب کے نام پر 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا اور یہودیت کے نام پر 1948 ءمیں اسرائیل کی ریاست بنی۔ہندو پانی اور مسلمان اورمسلمان پانی کے نعرے نے ہند کو دولخت کیا۔سرسید احمد خان نے ہندی اور اردو کے تنازعہ پر دل برداشتہ ہوکر اعلان کیا کہ ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں۔علامہ اقبال نے تحریر و تقریر سے دو قومی نظریہ کی آبیاری کی۔تحریک پاکستان کو فکری مواد مہیا کیا۔1930 ءمیں خطبہ الہ آباد میں ریاست پاکستان کا نظریہ دیا۔قائداعظم نے ابتداءمیں انگریز سے حصول آزادی کے لئے انڈیا نیشنل کانگرس میں شمولیت اختےار کی۔سروجنی نیڈو نے آپ کو”سفیر امن“کا خطاب دیا لیکن آپ آخر کار گاندھی کی عیاریوں ،نہرو کی مکاریوں اور ہندوو¿ں کی دل آزادیوں سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندو اور مسلمان اکھٹے نہیںرہ سکتے اور آپ نے علیحدہ مملکت کا اعلان کردیا۔پروفیسر محمد اسلم نے ”سفر نامہ ہند“میں آج کے ہندو کی ذہنیت اور پاکستان دشمنی کا مبنی بر حقائق جائیزہ لیا ہے۔ہندو دانشور ایم این رائے نے اپنی انگریزی تصنیف”اسلام کا تاریخی کردار“میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے ہندوو¿ں سے روا داری قائم رکھی اور مذہبی تعصب سے دور رہے ۔غزنویوں، لودھیوں، تغلقوں اور مغلوں نے ہندوو¿ں کے ساتھ انسانی رواداری کو ہمیشہ مدنظر رکھا۔جلال الدین اکبر نے تو ہندو خواتین سے شادی بھی کی اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے ”دین اکبری“بھی ایجاد کردیا۔لیکن ہندوو¿ں نے چند سال قبل اس بناءپر کہ ایک مسلمان نے ہندو عورتوں سے شادی کرکے ہندومت کی توہین کی ہے اس کی قبر کی بے حرمتی کی۔آج ”گاو¿ کشی“کے الزام پر سرعام مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔موجودہ وزیراعظم بھارت نریندر مودی عرف”مودی“نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور آج کشمیر میں نہتے مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا جارہا ہے۔آج ہمیں ”دوقومی نظریہ“کی ترویج کے ساتھ ساتھ ”یک قومی نظریہ “بھی اپنی نوجوان نسل کو سمجھانا ہے۔علامہ اقبال اور قائداعظم نے جابجا فرمایا کہ ”ہمارا خدا ایک ہے۔ہمارا رسول ایک ہے۔ہمارا کعبہ ایک ہے۔ہمارا قرآن ایک ہے“۔گویا اتحاد و اتفاق ہی میں برکت ہے۔وحدت میں عظمت ہے۔ہمیں نسلی،لسانی ،مذہبی،مسلکی،فقہی اور گروہی اختلافات و تنازعات سے کنارہ کشی کرنا ہوگی۔ہم سب مسلمان اور پاکستانی ہیں۔اسلامی جمہوریت اور مساوات محمدی کا نظام لانا ہوگا اور یہی چودہ اگست یوم آزادی کا پیغام ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے۔کہ قیام پاکستان کے لئے ہم نے جانوں کے نذرانے دے¿ے ہیں۔ایس کے نیاز مرحوم و مغفور مسلم ہائی اسکول سید پور روڈ راولپنڈی میں میرے انگریزی کے استاد تھے۔آپ نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا۔آپ کا تعلق چک بیلی خان سے تھا۔رئیس آف چکری بریگیڈئیر فتح علی خان کے دوستوں میں سے تھے جوکہ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے والد گرامی تھے۔آپ کی کتاب ”ذبیح موعود“شہادت امام حسینؓ پر بڑی علمی تصنیف ہے۔ان کے فرزند ارجمند چودھری مختار نیاز میرے کلاس فیلو اور سابق مینیجر نیشنل بنک کے علاوہ ممتاز ماہر تعلیم ہیں اور آچکل چک بیلی خان میں ایک کالج کے پرنسپل ہیں۔استاد محترم ہمیں کلاس میں تحریک پاکستان کے بارے بتاتے اور پاکستان سے محبت کا درس دیتے ۔ان ایک شعر ہے:
اک اشارے پر جناح کے سر کٹا سکتے ہیں ہم
جنگ آزادی میں گھر کا گھر لٹا سکتے ہیں ہم
یوم آزادی کے حوالہ سے ہی 12 اگست کو راولپنڈی آرٹس کونسل میں تقریب ہوئی۔نوید ملک،نسیم سحر اور ارشد ملک نے تقریب کا انعقاد کیا۔ممتاز شاعر اور کالم نگار آفتاب ضیاءمرحوم کی یاد میں مشاعرہ بھی ہوا۔راقم الحروف نے صدارت کی۔ڈاکٹر زاہد حسین چغتائی مہمان خصوصی اور ظفر کاظمی مہمان اعزاز تھے۔راولپنڈی اور اسلام آباد ے نامور مقررین اور شاعروں نے تقاریر کیں اور اشعار سنائے۔فرانس سے آئی ہو شاعرہ محترمہ شاہدہ شاہ سمن نے اپنی شعری تصنیف ”ہمیشہ تم کو چاہیں گے“ مرحمت فرمائی ۔دل میں محبت پاکستان ہے۔شعر شاہدہ محبت کی داستان ہے۔غزل ان کا اصل میدان ہے۔شعلہ وجدان ہے۔محترمہ ثناءاحمد کے ناول”کانچ کی تتلی“پر اظہار خیال واہ کینٹ میں صدارتی تقریر میں کیا تھا۔یہ ناول سماجی و معاشرتی مغرب زدہ خواتین کی ذہنیت پر ضرب کاری ہے۔پاکستان کے سرمایہ داروں کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرتا ہے۔اصلاحی ناول ہے۔ڈپٹی نذیر احمد کی اخلاقیات پر مبنی تحریروں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔مثبت تحریر ہے۔ مقصدیت کی آئینہ دار اور ادبی شہکار ہے۔محترمہ شاعری بھی کرتی ہیں۔ان کی نثری نظموں کا پہلا مجموعہ ”دکھ میرے اثاثے“کے بعد نثری نظموں کا دوسرا مجموعہ ”بھر بھری مٹی“شائع ہوا جو انہوں نے مجھے مرحمت فرمایا۔اردو شاعری کے سرکا تاج ”غزل“ہے۔غزل نے ہر دور کے مسائل کو اپنے اندر سمولیا۔رومانوی غزلیات نے خوب دھوم مچائی۔مگر غزل جدید نے سماجی و سیاسی و معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا۔میرو غالب سے لے کر سودا ذوق اور میر درد نے غزل کو سنوار اور نکھارا۔الطاف حسین حالی،محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی نے جدید نظم کی زلفیں سنواریں۔اقبال اور فیض نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم کو چار چاند لگاد یئے۔ن م راشد،جیلانی کامران،اعجاز احمد اور آفتاب اقبال شمیم نے آزاد شاعری اور نثری نظم میں اظہار خیال کیا۔نثری نظم رواج پذیر ہے لیکن اسے عجز شاعری کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔جوش ملیح آبادی نثری نظم کے شاعروں کو ”فخشان ادب“کہا کرتے تھے۔انگریزی میں والٹ ومن اور ٹی ایس ایلیٹ نے آزاد شاعری اور نثری نظم میں افکار کی جدت اور وجدان کی حدت سے نام پیدا کیا۔اسی طرح فارسی شاعری میں مہدی خوان ثالث،احمد شاملو، اور سہراب سپہری بڑے نام ہیں فارسی ادب میں آزاد شاعری کو ”شعر نو“کہا جاتا ہے۔اردو و ادب میں آزاد شاعری اور نظم معری میں تو چند جاندار شاعر ہیں لیکن نثری نظم نہ نظم ہے نہ یہ نثر ہے۔یہ تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔