محمود خان اچکزئی کے ”فتنہ پرور شوشے“!
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور رُکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی کے گزشتہ دنوں برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں جہاں اور بھی بے مغز باتیں کیں وہاں وادی جموں و کشمیر کے حوالے سے ایک ایسا شوشہ بھی چھوڑا جس سے بانیان پاکستان سمیت ”اقبال و قائد“ کے نظریات پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے نہ صرف ان لاتعداد مرحومین کی عالم ارواح میں روحیں تڑپ اٹھی ہوں گی بلکہ پورے ملک کے محبِ وطن عوام بھی دل مسوس کر رہ گئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے اپنے مخصوص نظریات کے تحت پاکستان کے اساسی نظریات اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر عہدِ آفریں تحریک پاکستان کے بارے میں اپنی غلط سوچ کا مظاہرہ اس طرح کیا ہے کہ بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں فرمایا کہ پاکستان کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز دے اس بات سے پاکستان دنیا کو بتا سکے گا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح انہوں نے یہ فرمایا کہ پاکستان اگر اخلاص سے کام کرے تو افغانستان کے 60 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں؟
کاش آج تحریک آزادی کشمیر کے علمبردار اور آزادی کشمیر کی خاطر ہر حکومت کا قِبلہ درست کرنے کے قلم بدست اقبال و ”قائد“ کے پرستار جناب مجید نظامی حیات ہوتے تو محمود خان اچکزئی کی اس تجویز کا ایسے بے رحمانہ انداز تحریر میں پوسٹ مارٹم کرتے کہ اس کے پسِ پردہ حقائق کے عیاں ہونے سے ”کشمیر کو آزاد“ کردینے کی تجویز کے محرک کو چھپنے کی جگہ نہ ملتی۔ قابلِ صد افسوس بات یہ ہے کہ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی موجودہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) کی اتحادی ہے اور اس کے سربراہ محمود خان اچکزئی بوجوہ حکومتی پارٹی کی قیادت کے گُن گانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جب کشمیر کے مسئلہ کے حل کے حوالے سے بی بی سی سے انٹرویو میںان سے سوال کیا گیا تو انہیں بھارت کے غاصبانہ قبضہ میں زیرتسلط وادی کشمیر میں بھارتی افواج کے روح فرسا مظالم کا خیال آیا نہ ان کا ذکر کرنا ان کی زبان نے گوارا کیا۔ بھارتی مُسلح افواج گزشتہ قریباً پون صدی سے کشمیری مسلمانوں پر ظُلم و تشدد کے پہاڑ توڑ رہی ہے‘ اس دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی افواج کے ہاتھوں راہ آزادی میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بھارتی افواج کے درندہ صفت فوجیوں کے انسانیت سوز سلوک نے پوری وادی میں خوف‘ دہشت اور وحشت کی فضا قائم کی گئی ہے۔ لاتعداد عفت مآب کشمیری خواتین بھارتی فوج کی درندگی کا شکار ہوگئیں اور یہ سلسلہ کبھی رُکا نہیں ہے۔ ایسے پُرآشوب حالات اور خون آشام بھارتی فوج کی کارروائیوں کے باوجود کشمیری مسلمانوں کی طرف سے تحریک آزادی کشمیر پورے جاہ و جلال سے جاری ہے اور دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہوچکی ہے کہ بھارتی افوج کی گولیوں سے چھلنی ہونے والے مجاہدین کشمیر کی زبان پر کلمہ طیبہ کے ساتھ یہ نعرہ بھی سُنا جاتا ہے کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان۔“
محمود خان اچکزئی کے ذہن میں بھی شاید اس کے محرکات کا علم نہ ہو اگر ہے تو ایسے لوگ اپنے مخصوص نظریات کے تحت ان سے غماز برت جاتے ہیں۔ خود ادارہ اقوام متحدہ اپنی قرارداد میں فیصلہ دے چکی ہے کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے اس کے عوام کا حق ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ کوئی ایسا بے درد اور پاکستان دشمن ہوگا جو ملک کی شہ رگ کو دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے اور اپنی مرضی سے استعمال کرنے کیلئے آزاد چھوڑ دے۔ محمود خان اچکزئی بلاشبہ قومی اسمبلی کے رکن اور وفاق سمیت ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب اور بلوچستان میں برسرِاقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) کے اتحاد ہونے پر مختلف قسم کی مراعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں کیا انہیں انٹرویو دیتے وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ان بے رحمانہ مظالم کا ذکر کرتے ہوئے حجاب محسوس ہوتا رہا جو وہاں آزادی تحریک کشمیر کو کُچلنے کے نام پر بھارتی افواج شہریوں پر ڈھا رہی ہے۔ جب یہی بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بچوں کو مخصوص انداز کی بندوقوں کی فائرنگ سے آنکھوں کی بینائی چھین رہی تھی اور اس پر دنیا بھر کی رائے عامہ نے احتجاج کیا تھا‘ اس بہیمانہ کارروائی کا ذکر جناب اچکزئی کی زبان سے کیوں ادا نہ ہوسکا۔ جناب اچکزئی کے قماش کے عناصر کو خود ہی اپنی ایسی اداﺅں کا ماتم کرنا چاہئے۔
یہ بات بھی ماتم سے کم نہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم کی جمہوری روایات اور اخلاقی اقدار کی وارث ہونے کے دعویدار حکومتی جماعت کے کسی بھی ذمہ دار شخص کو اس امر کی توفیق نہیں ہوگی کہ وہ محمود خان اچکزئی کی طرف سے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں ان باتوں کا نوٹس لے اور اس پر اپنے اس ردعمل کا اظہار کرے جو پاکستان کے اساسی نظریات پر یقین رکھنے والوں کا فرض ہے مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ جس جماعت کی قیادت اور اس کے حاشیہ نشینوں اور حواریوں کی بہت بڑی تعداد طالع آزما آمروں کی گود میں پلی ہو اسے بانیان پاکستان بابانی پاکستان کے نظریات سے آگاہی کا علم ہونا ناممکن ہے۔محمود خان اچکزئی کا یہ کہنا بھی پاکستان کے اربابِ حل و عقدکے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ انہوں نے انٹرویو میں یہ بھی فرمایا کہ پاکستان اگر اخلاص سے کام کرے تو افغانستان کے 60 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں! خدا معلوم یہ کہہ کر محمود خان اچکزئی کن طاقتوں کی نمائندگی کررہے ہیں یا کس کی زبان بول رہے تھے۔ اس سے تو سننے والے یہی مطلب اخذ کریں گے کہ افغانستان کو جو مسائل درپیش ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پاکستان کی وجہ سے ہیں اور پاکستان چاہے تو افغانستان کے مسائل حل ہوجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محمود اچکزئی کی اس بات نے پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے لاتعداد سوالات اٹھا دیئے ہیں؟ محمود خان اچکزئی کو حکومتی قیادت سے جو قرب حاصل ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حیرت ہے کہ برسراقتدار قیادت کی طرف سے اس حوالے سے اپنے اتحادی محمود اچکزئی سے اس بیان کے بارے میں کوئی وضاحت طلب کی جو منظرعام پر نہیں آئی مگر محمود اچکزئی صاحب نے بھرپور الفاظ میں افغانستان کے 60 فیصد مسائل کے حل نہ ہونے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے دیا ہے۔
جہاں تک افغانستان اور پاکستان کے مابین مسائل و معاملات کا تعلق ہے پاکستان کے عوام اس بات پر مُطمئن ہیں کہ اس بارے میں دونوں ممالک کے درمیان عسکری نوعیت کے معاملات کو حل کرنے میں پاکستان کی عسکری قیادت پوری طرح چوکس ہے۔ ملک پوری دانشمندی اور خلوص کے ساتھ اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی برسرِاقتدار قیادت بھی اس حوالے سے غیرمُطمئن نہیں ہے۔ ایسے میں محمود اچکزئی کا بیان افغانستان کی ترجمانی نہیں بلکہ ان کے مخصوص مقاصد کے حصول کی کارفرمائی ہی قرار دیا جاسکتا ہے جسے بے وقت کی راگنی بھی کہا جاسکتا ہے مگر پاکستان سے حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کے مسائل پر عیش کرنے والے بزرجمہروں کو اپنے پسِ پردہ مفادات کی خاطر ملکی اور قومی معاملات سے کھیلنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے صدق دل کے ساتھ حصول پاکستان کے مقاصد کیلئے سرگرم عمل ہونے کا عہد کرنا چاہئے۔انہیں وطن عزیز پاکستان سے نمک حلالی کا تقاضا ہے کہ وہ ہر سانس کے ساتھ اس ملک کے مفادات کو مقدم رکھیں۔