”ملی مسلم لیگ“
یہ تب کی بات ہے جب برصغیر میں برطانوی سامراج اپنے ہندوستانی فرزندوں کی مدد سے حکمران تھا اور گنگا جمناکی موجوں سے لے کر راوی وچناب کے کناروں تک اس کی ہیبت کے نشان کندہ تھے ۔جب "انقلاب زندہ باد" کی آواز پر شاہراہ عام پر ماﺅں کے البیلے لعل وگہراور نور کے نورس موتی چونے کے ڈرموںمیں ڈال کر جلادیئے جاتے تھے۔جب آزادی مانگنے کے جرم میں مولانا حسرت موہانی اور کامریڈخواجہ احسان الہی جیسے لوگوں کو جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں بارہ بارہ گھنٹے کھڑے ہوکر چکی پیسناپڑتی تھی۔جب مولانا ظفر علی خاں جیسے ادیب وشاعر اور آتش نوا کو طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک کو لہو میں جت کر بیل کی طرح مشقت کرنا پڑتی تھی۔جب لاہور سے لے کرپٹنہ کے بازاروں تک نوجوان حریت پسندوں کو ٹکٹکیوں پر گاڑ کر ان کے خون اور گوشت کا تماشا دیکھا جاتا تھا۔جب فوجی اضلاع کی مائیں اپنے بیٹوں کو دوسروں کا سہاگ لوٹ کر اپنا سہاگ رچانے کیلئے جنتی تھیں ۔جب کاسہ لیسوں کو خطاب اور مخبروں کو اعزازات دیئے جاتے تھے۔جب ولولہ اور تحریک ،عشق اور فرض ایک ساتھ چلتے اور گوشت پوست کا انسان فولادوسنگ کی ہمراہی میں آزادی کے خوابوں کی تصویریں تیار کرتا۔تب برطانوی سامراج کے خلاف ابتدائی طور پر جتنی بھی تحریکیں چلیں وہ تمام کی تمام عسکری تھیں یااس کا کچھ کچھ رنگ لئے۔کئی ایک عسکری جماعتوں نے تو باقائدہ طور پر اپنی اپنی "وردیاں"تک تیار کررکھی تھیں۔خاکساروں کے اجتماعات ان کی جدوجہد،نظم وضبط اطاعت امیر اور لازوال قربانیاں تو تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔سرحد کے سرخ پوش بھی کسی سے کم نہ تھے۔اس کے کارکن بھی باوردی ہواکرتے تھے۔مجلس احرار کا بھی سرخ رنگ کا مخصوص لباس تھا۔اس کے علاوہ ذاتی حیثیت میں بھی کئی نامور حریت پسندایسے تھے جہنوں نے آزادی کی خاطر موت کے پھندوں کو اس طرح آگے بڑھ کر چوما گویاماﺅں نے انہیں اسی دن کیلئے جنا تھا۔صبح پھانسی ہونا ہوتی تورات رات بھر ڈھولے اور ماہیئے گا گا کر سامراج کی بزدلی کا مذاق اڑانے ۔نظام لوہار ،ماجھے کا ملنگی،بابوہنس راج وائرلیس اور یامین ڈار جیسے نامعلوم سپاہی جانوں کا نذرانہ دے کر معلوم منزلوں کا پتہ بتا کر رخصت ہوگئے۔تب تک آزادی حاصل کرنے کا یہی ایک واحد حل سمجھا جاتا رہا۔ان کی قربانیاں کوئی لاحاصل کوشش نہ تھی۔ان کے خون نے آنے والوں کو ایک نیاراستہ دکھایا ۔ایسا راستہ جو سیدھا آزادی کی وادی میں جاکر کھلتا تھا۔یعنی ایک" سیاسی راستہ" جس کی ابتداءاگر کہاجائے کہ جمیعتہ علماءہند نے کی تھی تو غلط نہ ہوگا۔جیلوں ،پھانسیوں ،کال کوٹھڑیوں،عسرت ومالی پسماندگی سے لے کر "کالا پانی" اور"مالٹا"کے جزائر تک علماءدیوبند کے نقوش ثبت ہیں۔اسی قافلہءنیم جاں کے جگردار مجاہد شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے جب مکہ میں کہا کہ "انگریز کو بزورہندوستان سے نکال دوتوشریف مکہ نے آپ کو انگریز کے حوالے کردیا اور انگریز نے انہیں مالٹا میں قید کردیا۔مولانا عبید اللہ سندھی ایک طرح سے ان کے نائب تھے جو بجائے خود"تحریک ریشمی رومال"کے بانی اور برصغیر کے عظیم حریت پسند تھے "اسیر مالٹا"مولانا محمود الحسن چار سال تک مالٹاکے زنداں خانے میں قید رہے ۔اس دوران آپ برصغیر کی آزادی کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے نکلے تو اس نتیجے پر پہنچے کہ "عسکریت "سے برصغیر آزاد نہیں ہوسکتا۔آزادی کے لئے "سیاسی راستہ"ہی اپنانا ہوگا۔عسکریت کی گنجائش اب ختم ہوچکی تھی۔پوراہندوستان سیاسی انداز میں آزادی مانگنے لگا۔گاندھی ایک سیاسی راہنما کے طور پر بھارت بھر میں تسلیم کیا گیا۔پھر جب کانگریس او رخاص طورپر جواہر لال نہرو کے عزائم سامنے آئے تو برصغیر کے مسلمانوں کو اب حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی شکل میں ایک عظیم سیاسی راہنما میسر آگیا۔پاکستان آزاد ہوگیا اور اگلے روز ہندوستان کی آزادی کا اعلان کردیا گیا۔وہ تحریک جوعسکریت کے خون سے شروع ہوئی تھی۔سیاست کی میز پر آکر کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔اب ایک خوشگوار صورت حال سامنے آئی ہے کہ "جماعت الدعوة"نے خو کو قومی دھارے میں شامل کرلیا ہے اور"ملی مسلم لیگ"کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی ہے۔اور اس امر پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ مسائل کا حل اورآزادی کا حصول عسکریت نہیں سیاسی عمل میںمضمر ہے ۔یہی حقیقت ایک بار تنظیم آزادی فلسطین کے جنرل سیکرٹری اور نیو یارک یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر ایڈورڈ سعید نے بیان کی تھی،جب نیویارک میں مقیم ہم کچھ دوست معروف دانشور جوہرمیر کے ہمراہ ان کے آخری ایام میں خیریت دریافت کرنے نیویارک کے ایک ہسپتال میں گئے تھے۔"جماعت الدعوة" اب از کاررفتہ ہوچکی مگر اس کا مضبوط تنظیمی ڈھانچہ اب بھی موجود ہے۔اب اس کی قیادت کو خود کو سیاسی مزاج میں ڈھالنا ہوگا ۔اب یہاں حکم نہیں مشاورت کاچلن ہوگا ۔"ملی مسلم لیگ"کے قائدین کو اب مسلکی فکرونظر سے بالا ہوکر قومی سوچ اپنانا ہوگی۔یہ یاد رکھنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں میں نیک انسان بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔نمازی بھی اور بے نماز بھی ۔رئیس بھی اور غریب بھی۔عورتیں بھی اور مرد بھی،کوئی عورت لیگ کی عہدیدار بھی بن سکتی ہے۔سیاسی جماعت میں اقلیتس بھی ہوتی ہیں جن میں ہندو سکھ بھی شامل ہیں۔یہاں تک کہ ان میں سگریٹ نوش بھی ہوتے ہیں اور بلانوش بھی ۔بہادر آدمی بھی ہوتے ہیں اور بزدل بھی۔پارسا بھی ہوتے ہیں اور اچکے بھی۔رزق حلال والے بھی اور حرام کے مال پر پلے ہوئے انسان نما جانور بھی۔ان میں بااصول بھی ہوتے ہیں اور ضمیر فروش بھی۔غرضیکہ ایک سیاسی جماعت سماج کے تمام لوگوں ،ان کے رجحانات،ذرائع پیداوار اور اجتماعی ضمیر کی نمائندہ ہوتی ہے۔ا س میں وکلاء،تاجران،مزدور،کسان ،طلباءاور خواتین ونگ بھی ہوتے ہیں۔میڈیا کے تلخ وترش رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور بڑی خندہ پیشانی سے ۔"ملی مسلم لیگ"اس وقت تک نامکمل ہوگی جب تک اس کے جلسوں اور ریلیوں میں حضرت قائد اعظم کی تصویر سب سے نمایاں نہیں ہوگی۔ابھی تک اس مسلم لیگ کی ایک پریس کانفرنس دیکھی ہے جس میں حضرت قائد اعظم کی تصویر نظر نہیں آئی ۔اس پہلوپر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ سب سے نمایاں تصویر اور اقوال قائد اعظم کے ہوں۔"ملی مسلم لیگ"کا قیام ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے جس سے خیر کی امید کی جانی چاہیئے ۔