ان افراد کی نمائندگی کرنے کےلئے موجود ہیں جو قانونی چارہ جوئی کی استطاعت نہیں رکھتے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ آج ایک مبارک دن ہے کہ ہم معاشرے کے ان افراد کی نمائندگی کرنے کےلئے موجود ہیں جو قانونی چارہ جوئی کی استطاعت نہیں رکھتے، جن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ عدالتوں تک رسائی حاصل کرسکیں۔ کسی بھی ملک کا جسٹس سسٹم اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک وہاں کے غربت کی لکیر سے بھی نیچے لوگوں کو انصاف کی آسان اور جلد رسائی ممکن نہ بنائی جائے۔ وہ یورپین یونین کے تعاون سے فری قانونی معاونت کے حوالے سے شروع کئے گئے پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی 11 کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں سے کثیر تعداد عدالتوں تک رسائی کے وسائل نہیں رکھتی۔ ہمیں سب سے پہلی دشواری فنڈز کی کمی کے حوالے آئیگی لیکن اگر وفاقی و صوبائی حکومتیں اس میں تعاون کریں تو اس پروگرام کو بہترین انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے کہا کہ وہ صوبائی بجٹ میں سے اس پروگرام کےلئے مناسب فنڈز فراہم کریں تاکہ کریمنل کے ساتھ ساتھ سول مقدمات میں بھی ضرورت مند افراد کی قانونی معاونت کو یقینی بنایا جاسکے۔ پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں، ہمیں ہونہار نوجوان وکلاءتجویز کریں جو اس میں شامل ہوکر ذریعہ معاش کے ساتھ ساتھ غریبوں کی دعائیں بھی کمائیں۔ چیف جسٹس نے بڑی بڑی لاءفرمز سے بھی اپیل کی کہ وہ بھی اس بھلائی کے کام میں اپنا کردار ادا کریں اور ہماری ہمت بنیں۔ قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے لیگل ایڈ اینڈ فیئر ٹرائل کے حوالے سے کہا کہ چند ماہ قبل چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے ضرورتمند سائلین کےلئے مفت قانونی معاونت کا تصور پیش کیا، اس آئیڈیا کو یورپین یونین کے ساتھ زیربحث لایا گیا اور آج اس یہ ہمارے سامنے عملی جامہ کی صورت میں موجود ہے۔ لیگل ایڈ کی فراہمی کےلئے ایک مخصوص اور قابل عمل طریقہ کار اپنایا جائے گا اور لیگل ایڈ والے مقدمات کو فاسٹ ٹریک پر چلایا جائے گا، غیر ضروری التواءمیں نہیں ڈالا جائیگا۔ گرین کورٹس سے متعلق ورکشاپ سے خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان گلوبل وارمنگ کا اتنا ذمہ دار نہیں ہے لیکن کلائمیٹ چینج کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ ماحولیاتی انصاف عام انصاف سے مختلف ہے، یہ جسٹس پلس ہے۔ ماحولیاتی مقدمہ میں عدالت میں موجود دو فریقین کے علاوہ ایک خاموش فریق بھی انصاف کا متلاشی ہوتا ہے جو فطرت ہے، ہم نے فطرت کو انصاف دینا ہے اسے محفوظ بنانا ہے۔ اگر ہم ماحول کو محفوظ بنانے میں ناکام رہے تو اپنی آئندہ نسلوں کے مجرم ہوں گے۔ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی آنے والی نسلوں کےلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ ماحولیاتی تحفظ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے۔ ماحولیاتی مقدمات کا سائنس کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے، جوڈیشل افسروں کو اس پر عبور ہونا چاہئے تاہم ماہرانہ رائے کےلئے ماحولیاتی اور سائنسی ماہرین اور غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندوں کو عدالت میں بلایا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی تغیر سے بڑھ کر پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جسٹس منصور آج بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کےلئے ہنگری جائیں گے۔ انکی غیر موجودگی میں سینئر ترین جج مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار قائم مقام چیف جسٹس ہونگے۔ انکی حلف برداری تقریب کل پیر کو صبح 9 بجے لاہور ہائیکورٹ میں ہوگی۔
جسٹس منصور